18جون 1985
قدیم عرب کے لوگ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے حیرت انگیز تھے۔ ان کی مختلف صلاحیتوں میں سے ایک اعلیٰ صلاحیت یہ تھی کہ وہ کم الفاظ میں نہایت با معنی بات کہنا جانتے تھے۔
جنگ جمل کے زمانہ میں حضرت علی نے دو آدمیوں کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان کو تعاون پر آمادہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت ان الفا ظ میں آئی ہے:لَمَّا بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ إِلَى الْكُوفَةِ لِيَسْتَنْفِرَهُمْ ،خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ:إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ،وَلَكِنَّ اللهَ ابْتَلَاكُمْ بِهَا ، لَيَنْظُرَ إِيَّاهُ تَتَّبِعُونَ أَوْ إِيَّاهَا(السنن الکبریٰ للبیہقی، اثرنمبر 16717)۔ یعنی جب علی ابن ابی طالب نے عمار اور حسن کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ انھیں جنگ میں نکلنے کے لیے ابھاریںتو عمار نے تقریر کرتے ہوئے کہا: میں جانتا ہوں کہ عائشہ دنیا اور آخرت میں تمھارے پیغمبر کی بیوی ہیں۔ مگر اللہ نے اس کے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے تاکہ دیکھے کہ تم علی کا ساتھ دیتے ہو یا عائشہ کا— اتنی نازک بات کواس سے زیادہ کم الفاظ میں شاید نہیں کہا جاسکتا۔