19مارچ 1985
صحابي رسول بشیر بن خصاصیہ كا واقعه ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ سرکاری عمال صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں كرتے هيں(إِنَّ أَهْلَ الصَّدَقَةِ يَعْتَدُونَ عَلَيْنَا)، کیا هم اپنے مال میں سے زیادتی کے بقدر چھپالیں، بشير بن خصاصيه نے كها:نہیں (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1586) ۔ اسي طرح سعد بن ابی وقاص کی ایک روایت میں ہے:ادْفَعُوهَا إِلَيْهِمْ مَا صَلَّوُا الْخَمْسَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر343)۔ یعنی جب تک وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انھیں دیتے رہو۔
بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظامِ خلافت بدل گیا اور حکام ظلم وتشدد پر اترآئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں۔ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انھیں کو دینی چاهيے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھاکہ اب زکوٰۃ کس كو دیں۔ کہا: وقت کے حاکموں کو۔ انھوں نے کہا: وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کرڈالتے ہیں (إِذًا يَتَّخِذُونَ بِهَا ثِيَابًا وَطِيبًا)۔ابن عمر نے کہا:وَإِنِ اتَّخَذُوا ثِيَابًا وَطِيبًا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 10191) ۔ یعنی اگر چہ وہ کپڑے اور عطر لے لیں (پھر بھی تم انھیں کو زکوٰۃ دو)۔
صحابہ نے یہ جو کہا، يه کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں کہا۔ درحقیقت یہی اسلام کا حکم ہے۔ مسلمان کی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں میں خرابی نظر آئے تو صرف یہ حکم ہے کہ ان کو درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھاؤ۔ موجودہ زمانہ کی طرح ایجی ٹیشن چلانا، ان کے خلاف عوامی ہنگامے کرنا سراسر ناجائز فعل ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اس قسم کی سیاست چلا رہے ہیں، وہ بلا شبہ مجرم ہیں۔