24 جولائی 1985
قرآن میں بہت سے پیغمبروں کا ذکر ہے۔ اس کا مقصد اہل ایمان کو ان کی زندگی سے سبق دینا ہے۔ مثلاًسلیمان علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی کہ جنات کو ان کے لیے مسخر کردیا (الانبیاء، 21:81-82)۔ یہ چیز بعد کو یہود کے لیے فتنہ بن گئی۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ حضرت سلیمان جو کچھ کرتے تھے، جادو اور عملیات کے زور پر کرتے تھے۔ چنانچہ یہود نے جادو اور عملیات میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی۔ انھوں نے خدا کے دین کو جادو اور عملیات کا دین بنا کر رکھ دیا (البقرۃ، 2:102)۔
حضرت مسیح کا اصل کام دعوت تھا۔ دعوت کا تقاضا ہے کہ داعی یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا طریقہ اختیار کرے۔ چنانچہ حضرت مسیح نے اپنے پیروؤں کو رافت اوررحمت اور اعراض کی زبردست تاکید کی۔ بعد کو حضرت مسیح کے پیرو کار رافت ،رحمت اور اعراض کی دعوتی مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے اس کو اصل مطلوب سمجھ لیا اور اس میں مزید مبالغہ کرنا شروع کیا۔ یہاںتک کہ اعراض دنیا برائےاخلاق و دعوت کو انھوں نے ترکِ دنیا بمعنی رہبانیت بنادیا (الحدید، 57:27)۔
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ اپنی زندگی کا ابتدائی نصف سے زیادہ حصہ دعوت پر زور دینے میں صرف کردیا۔ اس زمانہ میں آپ نے بھی صبر اور اعراض اور یک طرفہ حسن اخلاق کی تعلیم دی۔ مگر ہجرت کے بعد قریش کی جارحیت نے آپ کو دفاع پر مجبور کیا۔ اس وقت آپ کے اوپر قتال کی آیتیں اتاری گئیں۔ مدنی زندگی کا بیشتر حصہ جارحانہ کارروائیوں کا دفاع کرنے میں گزرا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اندیشہ تھا کہ آپ کی امت بھی اس معاملہ میں فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ جوچیز مشرکین اورکافروں کی جارحیت کے خلاف بطور دفاع فرض کی گئی تھی، اس کو مسلمان خود اپنی جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبےمیں فرمایا:لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4403) ۔ یعنی میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔
اس طرح کی کثیر حدیثیں ہیںجن میں مسلمانوں کو مطلق طورپر جنگ سے منع کیا گیا ہے۔ مگر خلیفہ سوم کے زمانہ ہی میں مسلمان اس فتنہ میں پڑ گئے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین انتباہ کے باوجود آپس میں لڑنا شروع کردیا اور کہا کہ یہ جہاد ہے۔ مگر یہ جہاد نہیں بلکہ بدعت تھی اور یہ بدعت آج تک مسلمانوں میں جاری ہے۔