28جنوری 1985
عرب ممالک کے سفر کے دوران اگست 1982میں میری ملاقات ایک مصری نوجوان سے ہوئی تھی۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد سعید مراد ہے۔ انھوں نے مصر کے انور سادات (1918-1981) کے بارے میں بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اِن اخوانیوں پر رحم نہیں کروں گا۔
انور سادات نے اسکندریہ کے شیخ المحلاوی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے، محمد سعید مراد کے الفاظ میں، کہا :قال السادات عنہ فی خطبۃ عندما کان یتحدث عن الجماعات الاسلامیۃ اعتقلها۔
’’وهناك رجل من الاسکندریۃ کان یهاجم النظام ولکنہ الآن مرمیّ فی السجن مثل الکلب‘‘ یقصد الشیخ المحلاّوی ۔ وکان السادات یقول فی خطابہ تکراراً انا لم ارحم ہذہ الجماعات"۔(اسکندریہ میں ایک آدمی ہے، وہ حکومت سے ٹکراؤ کرتا ہے، لیکن اب وہ جیل میں کلب کی مانند بند ہے۔ ان کی مراد شیخ المحلاوی تھے۔ اور سادات اپنی تقریروں میں بار بار کہا کرتے تھے کہ میں ان جماعتوں پر رحم نہیں کروں گا)
انورسادات کے یہ الفاظ بہت سخت معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اس میں پچاس فی صد غلطی اگر انورسادات کی ہے تو پچا س فی صد غلطی ان حضرات کی جو حکومت ٹکراؤ کی سیاست کررہے تھے۔
مسلمانوں کا کوئی بھی ادارہ ہو۔ اگر وہاں کوئی شخص ادارے کے صدر کامخالف بن جائے تو اس کے ساتھ بقدرِ استطاعت ادارے کے لوگ وہی سلوک کریں گے ،جو اپنی استطاعت کے دائرے میں انورسادات نے اپنے مخالفوں سے کیا۔ انورسادات اور ان کے جیسے حکمرانوں کے ظلم کی داستان سنانے والے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ یہ وہی سلوک ہے جو خود اپنے اداروں میں ہورہا ہے:
این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند