30 ستمبر 1985
اینڈریو کارنیگی (1835-1919)نے اسٹیل کی صنعت میں کافی ترقی کی۔ 1889 میں اس نے ایک مقالہ شائع کیا جس کا نام تھا دولت کی بائبل (The Gospel of Wealth) ۔ اس مقالہ میں اس نے بتایا کہ دولت مند آدمی جب دولت حاصل کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو رفاہ عام کے کام میں لگائے:
A rich man should, after acquiring his wealth, distribute the surplus for the general welfare. (Andrew Carnegie)
یہ ایک نہایت اہم اصول ہے۔ اینڈریو کارنیگی نے جو بات سماجی اصطلاح میں کہی وہی بات پیغمبر اسلام نے مذہبی اصطلاح میں اس طرح کہی ہے کہ خدا تمھیں دولت دے تو تم دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 990)۔
یہ اصول نہ صرف آخرت کی فلاح کا ضامن ہے بلکہ دنیا کی ترقی بھی اسی سے ملتی ہے۔ موجودہ زمانے میں کئی ملکوں میں بیرونی افراد کے خلاف سخت ناراضگی پیداہوئی۔ مثلاً افریقن ملک یوگنڈا میں ایشیائی لوگوں کے خلاف، سری لنکا میں تامل والوں کے خلاف، پاکستان میں مہاجرین کے خلاف، وغیرہ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے اپنی کمائی ہوئی دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا، مقامی آبادی پر خرچ نہیں کیا۔
جو تجارتی قومیں اس راز سے واقف ہیں وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ مستقل طور پر مقامی آبادی کی فلاح پرخرچ کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت کامیاب ہیں۔ مثال کے طورپر ہندستان میں جینی فرقہ اور پارسی فرقہ۔ یہ لوگ بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی دولت کا بڑا حصہ ان کے قبضہ میں ہے۔ مگر آج تک ان کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کمائی کاایک حصہ ہر سال دوسروں کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً اسکول، اسپتال، تعلیمی وظائف وغیرہ وغیرہ۔