24جنوری 1985
علامہ اقبال(1877-1938) کا ایک شعر ہے:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
اس قسم کے اشعار لوگ بہت جوش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس قسم کے اشعار جو ذہن بناتے ہیں وہ سراسر غیر قرآنی ذہن ہے۔ قرآن کے مطابق، خاشاک غیر اللہ کو جلانا اور باطل کو غارت کرنا خدا کا کام ہے، نہ کہ انسان کا کام۔ اس قسم کے اشعار سے صرف جھوٹا فخر پیدا ہوسکتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی کار آمد ذہن۔
مومن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کا خیر خواہ (well-wisher)ہو۔ لوگوں کے لیے اس کے دل میں محبت کے چشمے جاری ہوجائیں۔ وہ لوگوں کو آخرت کی دعوت دینے کا حریص بنے ، نہ کہ انھیں شعلوں کی نذر کرنے کا حریص۔اہلِ ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حق کا اعلان کرنے والے بنیں۔ اس اعلان کا اصل جذبہ خیر خواہی ہونا چاہیے ،جس کو قرآن میں نصح کہاگیا ہے (الاعراف، 7:62)۔ یہ داعیانہ جذبہ ہی صحیح ایمانی جذبہ ہے۔ اس ناصحانہ دعوت کے نتیجے میں یا تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ حق کے راستے کو قبول کرلیتے ہیں یا وہ اس کا انکار کرکے سزا کے مستحق بنتے ہیں۔تاہم اس سزا کا فیصلہ کرنے والا اور اس کو نافذ کرنے والا خدا ہے، نہ کہ کوئی انسان۔