16فروری 1985
عربی زبان کا ایک مثل ہےکہ تجربہ کرنے والے سے معلوم کرو، عقل مند سے نہ پوچھو:
سَلِ المجرِّب ولا تسئل الحکیم
یہاں حکیم (عقل مند) سے مراد وہ انسان ہے، جس کو صرف نظریاتی جانکاری حاصل ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ باتوں کو وہی شخص جانتا ہے جس پر تجربہ گزرا ہو۔ جو شخص صرف نظریاتی واقفیت رکھتا ہو، وہ اصل حقیقتوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے، جس طرح کاغذكي كوئي کتاب زندگی کے عملی معاملات سے بے خبر ہو۔
مگر اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار کے بتانے کے باوجود آدمی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ آدمی کسی بات کی حقیقت صرف اس وقت سمجھتا ہے، جب کہ اس پر خود ذاتی تجربہ گزرے۔ جب کہ وہ تجربہ کر کے نقصان اٹھا چکا ہو۔ ذاتی طورپر تجربہ کی چکّی میں پسنے سے پہلے بمشکل ہی کوئی شخص باتوں کی حقیقت کو سمجھ پاتا ہے۔ چاہے لفظی طورپر اس کو کتنا ہی زیادہ سمجھا جائے۔