22اپریل 1985
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے قاری ہیں۔ میں نے الرسالہ کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے سفر نامہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا سفر نامہ بہت دل چسپ ہوتا ہے۔
اس قسم کا تبصرہ ذاتی طورپر مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ الرسالہ ذہنی تفریح کے ليے نہیں نکالا گیا ہے کہ لوگ اس کو دلچسپی کے ليے پڑھ لیا کریں۔چنانچہ موصوف کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت ناگواری ہوئی۔ مگر میں نے ناگواری کو برداشت کیا، اور اس کا اثر اپنی گفتگو یا ظاہری رویہ میں آنے نہیں دیا۔اس کے بعد انھوں نے مزید اپنے تاثرات بیان کیے۔ الرسالہ کے بارے میں بھی اور مکتبہ الرسالہ کی مطبوعات کے بارے میں بھی۔ ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں میرا وہ تاثر صحیح نہ تھا، جو ان کے ابتدائی فقرہ کو سن کر ہوا تھا۔ وہ الرسالہ کو محض ’’دلچسپی‘‘ کے ليے نہیں پڑھتے۔ بلکہ وہ ان کے دل میں اترچکا ہے، اور وہ اس کو اپنے حلقہ میں پھیلانے کی بھی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس سے میں نے یہ سبق لیا کہ آدمی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاهيے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ بیشتر آدمی یہ نہیں جانتے کہ کسی بات کو کہنے کے ليے موزوں ترین لفظ کیا ہے۔ وہ اکثر ایک موزوں بات کو غیر موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ہم کو چاهيے کہ ہم آدمی کو زیادہ سے زیادہ رعایت دیں۔ اجتماعی زندگی کوفساد سے بچانے کا یہی واحد کامیاب طریقہ ہے۔