1 نومبر 1985
انسانوں میں کچھ کم صلاحیت کے لوگ ہوتے ہیں اور کچھ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
کم تر صلاحیت کے لوگ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے پیچھے چلیں ۔ یہ صرف اعلیٰ صلاحیت کے افراد ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔اونچی صلاحیت کے افراد کوئی بڑا کام صرف اس وقت کر پاتے ہیں جب کہ وہ ’’صبر ‘‘ کی سطح پر کام کرنے کے لیے راضی ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔
بڑا کام کرنے کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی چھوٹا کام کرنے پر اپنے آپ کو راضی کرسکے۔ زندگی کی تعمیر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو گم نامی میں جانا پڑتاہے۔ اس کو کبھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس کو ایسا کام کرنا پڑتا ہے جس میں اس پر بز دلی اور مصالحت کا الزام لگایا جائے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے اعلیٰ صلاحیت کے افراد پیدا ہوئے۔ مگر ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ اس کا اپنا شخصی گنبد تو کھڑا ہوگیا مگر اس کے ذریعہ سے ملت کا محل تعمیر نہ ہوسکا۔ اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی حوصلہ مندی ان کے لیے ’’چھوٹا کام“ کرنے میں مانع ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص ایسے کاموں کے پیچھے دوڑتا رہا جن کو بڑے بڑے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہو— ایسا عمل صرف شخصیتیں بناتا ہے، وہ قوموں کی تعمیر نہیں کرتا۔