9فروری 1985
قدیم عربوں کے نزدیک سب سے بڑی انسانی صفت حماسۃ تھی، یعنی بہادری۔ اس بہادری کا اظہار قديم عرب ميں سب سے زیادہ لڑنے بھڑنے میں ہوتا تھا۔ایک حماسی شاعر کہتاہے:
إذا المهرة الشقراء أركب ظهرها فشب الإله الحرب بين القبائل
یعنی جب میرا گھوڑا سواری کے قابل ہوجائے، تو خدا قبائل میں جنگ بھڑکا دے (تاکہ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکوں)
عربوں کا یہ لڑنے بھڑنے کا ذہن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر دشمن لڑنے کے ليے نہ ملتا تو وہ آپس ہی میں لڑنے لگتے۔ ایک شاعر کہتا ہے:
وأحياناً على بكرٍ أخينا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی قبیلہ بکر پر (حملہ کردیتے ہیں)، جب کہ ہم کو (لڑنے کے ليے) اپنے بھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
عربوں کی یہ بہادری (حماسۃ) ان کا بہت بڑا جوہر تھی۔ اسلام سے پہلے ان کی اس بہادری کا کوئی بلند نشانہ انھیں معلوم نہ تھا۔ اسلام نے انھیں ایک بلند نشانہ دے دیا۔ چنانچہ انھوں نے عالم میں انقلاب برپا کردیا۔