28اکتوبر 1985
رمضان کے بارے میں مختلف روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سےایک روایت یہ ہے:وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر1079)۔ یعنی اور اس ماہ میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔
حدیث کے الفاظ کو اس کے ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں تمام دنیا کے شیاطین علی الاطلاق (absolute sense) قید کردیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات بداہۃً (prima facie) خلاف واقعہ ہے۔کیوں کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ تمام گناہ بدستور ہوتے رہتے ہیں جو سال کے دوسرے مہینوں میں ہوتے ہیں۔
اس لیے حدیث کا مفہوم قید کے ساتھ لینا ہوگا۔ یعنی یہ کہ سنسیرٹی (sincerity) کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کےلیے اللہ کی مدد آتی ہے، اور شیاطین کاان پر غلبہ نہیں ہوپاتاہے۔ یعنی جو لوگ سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں ان کے اندر رمضان میں گناہوں کی تحریک نہیں ہوتی یا بہت کم ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی حالت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ (15:42)۔ یعنی بیشک جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا زور نہیں چلے گا۔ سوا ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کریں۔
حدیث ایک دعوتی اور تربیتی کلام ہے، اور دعوتی اور تربیتی کلام میں یہی انداز زیادہ مؤثر ہے۔ منطقی اسلوب دعوت و تربیت کے لیے مؤثر نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا کہ’’جو روزہ دار پورے شرائط و آداب کے ساتھ روزہ رکھے اس کے شیاطین قید کردیے جائیں گے“ تو کلام کی تاثیر نسبتاً کم ہوجاتی۔