4اپریل 1985
شریمتی سبھدرا جوشی (پیدائش 1919) نے فورمن کرشچین کالج لاہور سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ بچپن سے ملکی سیاست میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ 1947کے بعد فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والوں میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ماہنامہ شبستان (جون 1972) کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا:
1947 کے ہنگامہ میں ہم دہلی کے مسلم محلوں میں کام کررہے تھے۔ دلی کانگریس پر ہمارا قبضہ تھا۔ گاندھی جی آئے انھوں نے ہم سے پوچھا، کتنے مسلمان مارے گئے۔ ہم نے بتایا کہ دس ہزار سے زیادہ مارے گئے ہیں۔ وہ بہت برہم ہوئے اور کہا کہ تم نے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ہم نے کہا ہم تو برابر کوشش کررہے ہیں، مگر حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ انھوں نے غصے میں پوچھا ان دس ہزار میں تمھارے کانگریس ورکر کتنے مارے گئے۔ ہم نے جواب دیا، ایک بھی نہیں۔ اس پر وہ بولے: پھر میں کیسے مان لوں کہ تم نے بچانے کی کوشش کی ہوگی‘‘۔
سبھدرا جوشی کی رپورٹ کے بعد گاندھی جی کا ایک جواب یہ ہوسکتا تھا— ’’کوشش اپنا کام ہے، کامیابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تم اپنی کوشش جاری رکھو‘‘۔
مگر یہ جواب نہیں۔ جولوگ اپنے ماتحتوں کو اس قسم کے جواب دیں وہ زندگی کی حقیقتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔