دعوت ایک سنگین ذمہ داری

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑوسی کے بارے میں ان الفاظ میں  آئی ہے: كَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٌ بِجَارِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ:يَا رَبِّ، هَذَا أَغْلَقَ بَابَهُ دُونِي، فَمَنَعَ مَعْرُوفَهُ (الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر111)۔ یعنی کتنے ہی پڑوسی ہیں، جو اپنے پڑوسی کو پکڑے ہوئے ہوں گے قیامت کے دن۔ وہ کہیں گے کہ اے میرے رب ، اس نے اپنا دروازہ میرے لیے بند رکھا، اور اپنی بھلائی کو مجھ سے روک دیا۔

 یہاں معروف کا لفظ دینی ہدایت کے معنی میں  آیا ہے۔یعنی ایک شخص قیامت کے دن رب العالمین سے اپنے پڑوسی کے بارے میں  شکایت کرےگا کہ اس انسان کے پاس میری نجات کا   راستہ تھا، مگر اس نے اپنے گھر کے دروازے کو میرے اوپر بند رکھا، اور اسلام کی دعوت مجھ کو نہیں دیا،جو آج میرے کام آتا، اور مجھ کو ابدی تباہی سے بچالیتا۔ اس حدیث میں  ایک پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا میں  ایمان کا دعویٰ کرتا تھا، اور اس کے پاس اللہ کی ہدایت قرآن و سنت کی شکل میں  موجود تھی۔ دوسرے پڑوسی سے مراد وہ انسان ہے جو اپنی بے خبری کی بنا پر صاحب ایمان نہ بن سکا۔ کیوں کہ اس کے مومن پڑوسی نے اس کی قابل فہم زبان میں  اس کو اللہ کی ہدایت نہیں پہنچائی۔

یہ حدیث قیامت کے بارے میں  ہے۔ قیامت میں  کسی کو یہ محرومی نہیں ستائے گی کہ وہ دنیا میں  مادی چیزوں کے پانے میں  ناکام رہا ۔ کیوں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہوگا۔ قیامت میں  کسی کوصرف یہ چیز تڑپائے گی کہ کاش میرے پڑوسی نے میری قابل فہم زبان میں  مجھ کو ہدایت پہنچائی ہوتی تو میں  اس پر ایمان لاتا، اور آج میں  جنت میں  داخلے سے محروم نہ رہتا۔ اس حدیث کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں  عام پڑوسی کے علاوہ الیکٹرانک پڑوسی (e-neighbour) بھی شامل ہوں گے۔کیوں کہ آج دُور کے پڑوسی کو ہدایت پہنچانا اتنا ہی آسان ہوگیا ہے، جتنا کہ قریبی پڑوسی کو پہنچانا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom