دعوت کی ری پلاننگ
دعوت الی اللہ اسلام کا اہم ترین مشن ہے۔ دعوت کے دو دور ہیں۔ آغاز سے ظہور سائنس تک، ظہور سائنس کے بعد اکیسویں صدی تک۔ جدید سائنس سے پہلے دعوت اسلام کا کام استدلال کے اعتبار سے معجزہ (miracle) کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اس کو قرآن ( 57:25)میں بینات کہا گیا ہے۔ دوسرے دور میں دعوت کا کام استدلال کے اعتبار سےسائنسی شہادت (scientific evidence) کی بنیاد پر انجام پانا ہے۔ یہ سائنسی شہادت وہی چیز ہے جس کو قرآن (41:53)میں آیات آفاق و انفس کے الفاظ میں پیشگی طور پر بیان کردیاگیا ہے۔
ماڈرن سائنس کوئی اجنبی چیز نہیں۔ یہ دراصل فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ فطرت میں یہ مخفی دلائل اسی لیے رکھ دیےگئے تھے کہ وقت آنے پر ان کو دریافت کرکے دعوت کےحق میں استدلالی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اب آخری طور پر وہ زمانہ آگیا ہے، جب کہ اس استدلالی بنیاد کو دعوت حق کے لیے استعمال کرکے دعوت حق کا وہ اعلیٰ استدلالی کام انجام دیا جائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) کہا گیاہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کی بنیاد پر دعوت کےاس کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ راقم الحروف نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ، اور درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں اس موضوع پر لکھی هيں۔ ان میں سے ایک مذہب اور جدید چیلنج ہے جو پہلی بار 1966 میں چھپی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ اکثر بڑی بڑی زبانوںمیں ہوچکا ہے۔ مثلا عربی میں الاسلام یتحدی (1970)، اور انگریزی میں گاڈارائزز (1988) ،وغیرہ۔اس موضوع پر مسیحی علماء نے کافی کام کیا ہے۔ مثلاً چالیس امریکی سائنسدانوں کے مقالات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe
یہ کتاب پہلی بار 1958 میں امریکا سے چھپی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کا عربی ترجمہ اللہ یتجلی فی عصر العلم (1987، مصر ) کے نام سے چھپا۔ اردو میں اس کا ترجمہ خدا موجود ہے ۔اس موضوع پر ایک اور قابل ذکر کتاب بائبل قرآن اورسائنس (The Bible, the Quran, and Science)ہے۔ یہ کتاب اولاًڈاکٹر ماریس بوکائی نے فرانسیسی زبان میں تیار کی ۔اس کے بعد اس کتاب کا ترجمہ انگریزی و دیگر زبانوں میں ہوا۔عربی زبان میں اس کتاب کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ اس کا ٹائٹل ہے :التوراة والإنجيل والقرآن والعلم(بیروت، 1407ھ) —تاہم اس کام کی تکمیل کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، وہ ہم کو ایک نیا فریم ورک (framework) دے رہی ہیں۔ اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کےمسلمہ علمی معیار پر ثابت شدہ بنایا جا سکے۔
جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کا علم کلام ہے۔ جدید سائنس نے وہ ڈیٹا (data) فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات کو وقت کے مسلمہ معیار کی بنیاد پر پیش کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جدید سائنسی دور قرآن کی ایک آیت کی پیشین گوئی کا واقعہ بننا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53) ۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں سائنسی مطالعہ کے ذریعہ فطرت کے قوانین (laws of nature) دریافت ہوں گے، اور ان دریافتوں کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی حقیقتوں کو اعلیٰ عقلی معیار پر ثابت شدہ بنایا جاسکے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی حقیقتوں کی دریافت ہو گی، جن کی بنیاد پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی علم کلام کو وقت کے مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر مدوّن کیا جاسکے۔