جاپان کی مثال

دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں  جاپان اس کا سرگرم ممبر تھا۔ اس نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنگ میں  شرکت کی۔ لیکن جب 1945 میں  امریکا کی طرف سےجاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے، اور اس کے نتیجے میں  جاپان کے دو بڑے شہروں ، ہیروشیما اور ناگاساکی میں  بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ یہ جاپان کے لیے مکمل شکست کا واقعہ تھا۔ مگر 25 سال کے بعد جاپان دوبارہ ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ آج جاپان کا شمار اعلیٰ ترقی یافتہ ملکوں میں  ہوتا ہے۔ یہ کامیابی جاپان کو کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ری پلاننگ کے ذریعہ۔

جنگ کے بعد جاپان کے مدبّروں نے پورے معاملے پر ازسر نو غور کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ میں  اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود ، اور جان و مال کی قربانیاں دینے کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بعد ان کے اندر نئی سوچ پیدا ہوئی،انھوں نے دریافت کیا کہ اس دنیا میں  کوئی بڑی کامیابی صرف امن کی طاقت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ تشدد کا طریقہ بربادی تو لاسکتا ہے، لیکن وہ کوئی ترقی لانے والا نہیں۔

اس کے بعد اس وقت کے جاپانی حکمراں ہیرو ہیٹو (Hirohito) نے ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں  بتایا کہ جاپان کی دوبارہ ترقی کے لیے ہمیں  ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے، تاکہ ہم جاپان کو ایک ترقی یافتہ نیشن بنا سکیں:

The time has come to bear the unbearable

دو ایٹم بموں کی تباہی کی بنا پر جاپانی قوم اس وقت انتقام میں  مبتلا تھی۔ لیکن جاپان کے کچھ دانشور اٹھے۔ انھوں نے یہ کہہ کر جاپانی قوم کو ٹھنڈا کیا کہ امریکا نے اگر 1945 میں  ہمارے دو شہر ، ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا ہے تو اس سے پہلے 1941میں  ہم خودکش بمباری کے ذریعہ امریکا کے بحری مرکز پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس حادثے کو بھلاؤ، اور جاپان کی نئی تعمیر کرو۔

اس کے بعد جاپان نے اپنی قومی تعمیر کی ری پلاننگ کی ۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے فوجی میدان کو چھوڑ دیا، اورپچیس سال تک صرف سائنسی تعلیم اور صنعت پر زور دیا جاتا رہا۔ اس نئی پلاننگ کی تفصیلات کتابوں میں  دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نئی پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ جاپان شکست کے کھنڈر سے نکل کر دوبارہ ایک فاتح ملک بن گیا۔

جاپان کے لیڈروں نے جس طرح اپنے ملک کی ری پلاننگ کی۔ اس میں  مسلم رہنماؤں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ مسلم علاقوں میں  بھی کسی نہ کسی طور پر اسی قسم کے ناموافق حالات موجود ہیں۔ مسلم ممالک کے لیے بھی یہی امکان ہے کہ وہ ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرکے دوبارہ اعلیٰ ترقی حاصل کرے۔مثال کے طور پر فلسطین کے معاملے میں  جب بَالفور کا فیصلہ (Balfour Declaration) سامنے آیا تو اس وقت مسلم رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین كا آدھا حصه یہود کو دےدیا گیا ہے، تو ہم کو چاہیے کہ ہم اس کو قبول کریں۔ کیوں کہ اس سے پہلے ہم صدیوں تک پورے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔ اب اگر یہود کو موقع مل رہا ہے تو یہ قانونِ فطرت (آل عمران،3:140)کے تحت ہورہا ہے،اس میں  ناانصافی کی کوئی بات نہیں۔ مسلم رہنماؤں نے اگر اس قسم کا فیصلہ کیا ہوتا تو یقیناً آج فلسطین کی تاریخ مختلف ہوتی۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں  بھی نمونے موجود ہیں، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں  بھی ۔ انسانی تاریخ ہر قسم کے نمونے سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom