بے فائدہ جنگ
پیغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا، حتى يأتي على الناس يوم لا يدري القاتل فيم قَتَل، ولا المقتول فيم قُتِل۔ فقيل:كيف يكون ذلك؟ قال:الهرج، القاتل والمقتول في النار(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2908) ۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک كه لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا، جب کہ قاتل یہ نہیں جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا، اور مقتول یہ نہیں جانے گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔کہا گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرج (بے معنی قتل وقتال)کے زمانے میں ہوگا۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
ہرج کا مطلب شارحین حدیث نےبتایا ہے :شدۃ القتل و کثرتہ (عمدۃ القاری،جلد نمبر7،صفحہ نمبر58)۔یعنی قتل و قتال کی شدت اور کثرت۔اس قسم کے مجنونانہ قتل وقتال کی صورت کسی گروہ میں کب پیش آتی ہے ۔جب وہ گروہ قوم پرستی میں دوسروں کے خلاف اندھی دشمنی تک پہنچ جائے۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال ہے۔ ان کے اندر آخری حد تک یہ ذہن پیدا ہوگیا ہے کہ انھوں نےقومی حمایت میں دوسروں کو اپنا ابدی دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ہر وقت سازش میں مصروف رہتی ہیں۔ اس خود ساختہ سوچ کی بنا پردوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جنون کی حد تک نفرت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر تشدد (violence) کا جو انتہاپسندانہ ظاہرہ دکھائی دیتا ہے، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وہ نہ صرف دوسری قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے ہیں،بلکہ خود ان مسلمانوں کے خلاف بھی ، جن کے بارے میں وہ یہ فرض کرلیں کہ وہ ان کے دشمنوں کے حامی ہيں۔
موجودہ زمانے میں یہ حال ہے کہ مسلمانوں کے مختلف ٹررسٹ (terrorist) گروپ بن گئے ہیں۔ وہ مختلف مقامات پر قتل و قتال کا ہنگامہ جاری کیے ہوئے ہیں،حتی کہ اسکول کے بچوں، مسجد کے نمازیوں، اور قبرستان کے سوگوار افراد پر بھی۔ قتل و قتال کا یہ اَن جسٹیفائڈ (unjustified)ہنگامہ اتنا زیادہ ہے، جیسے کہ ان لوگوں نے قتال برائے قتال کو خود ایک مطلوب کام سمجھ لیا ہے۔ خواہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی معقول سبب (justified reason)موجود نہ ہو۔