تھیسس، اینٹی تھیسس
فریڈرش ہیگل(وفات 1831)اٹھارویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی ہے۔ اس نے ایک فلسفہ پیش کیا۔ جس کو تھیسس اور انٹی تھیسس (thesis and anti-thesis) کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کو انسانی تاریخ پر منطبق کرتےہوئے، کارل مارکس نے اپنا مشہور نظریہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) وضع کیا۔ ہیگل اور مارکس، دونوں نے ایک مشترک غلطی کی۔ تاہم ان کے نظریے میں ایک جزئی صداقت پائی جاتی ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے کی اصل فطرت کے ایک قانون پر قائم ہے۔ یہ قانون وہی ہے جس کو قرآن میں قانون دفع کہا گیا ہے ( 2:251؛ 22:40)۔
قرآن میں دفع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دفع کا لفظی مطلب ہے، ہٹانا (to repel)۔ اس سے مراد تاریخ کے وہ انقلابات ہیں،جو ایک قوم کو غلبہ کے مقام سے ہٹاتے ہیں، او ر اس کے بعد دوسری قوم کو موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا کا انتظام سنبھالے۔ اس قسم کے انقلابات تاریخ میں بار بار ہوئے ہیں۔ یہ انقلابات بظاہر انسان کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالق کا منیجمنٹ (management) ہوتا ہے۔ خالق انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کر رہا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہےجس کو قرآن میں دفع کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی تاریخی حقیقت کو ہیگل اور مارکس نے اس طرح بیان کیا کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک صورت حال یا مقدمہ (thesis) سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد خود تاریخی اسباب سے اس کا جوابی مقدمہ (anti-thesis) وجود میں آتا ہے۔اس کے بعد ایک امتزاج (synthesis) وجود میں آتا ہے، جو سابق حالت کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔ یہ معاملہ سیکولر تاریخ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور مذہبی تاریخ کے ساتھ بھی۔
قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ حالات کے تحت ایک ایکشن (action) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں ایک ری ایکشن (reaction) پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری شکل سامنے آتی ہے، وه اس صورتِ حال کا رسپانس (response)ہے۔ نیگیٹیو رسپانس (negative response) حالات کو مزید بگاڑتا ہے، اور پازیٹیو رسپانس (positive response) سماج کو ایک بہتر دور کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ میں ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جاننا، اور ری ایکشن سے بچ کر صورتِ حال کا پازیٹیو رسپانس دينا، یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔