تبصرہ
حضرت نوح کا جو مشن تھا، وہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔حضرت آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے پیغمبر دنیا میں آئے، اُن سب کا واحد مشن یہ تھا کہ وہ انسان کو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کریں۔ وه ان کو یہ بتائیں کہ موجودہ دنيا ايك دار الامتحان (testing ground) هے۔ يهاں انسان كو آزادي دے كر يه امتحان ليا جارها هے كه كون شخص اپني آزادي كا صحيح استعمال كرتا هے اور وه كون شخص هے جو اپني آزادي كا غلط استعمال كرتا هے۔ يه معامله ايك متعين وقت (appointed time) تك كے ليے هے۔ اس كے بعدقيامت آئے گي اور قرآن كے الفاظ ميں، موجوده دنيا كو بدل كر ايك اور دنيا ( 14:48)بنائي جائے گي، جهاں امتحان ميں كامياب هونے والے ابدي جنت ميں جگه پائيں گے، اور امتحان ميں ناكام هونے والوں كا ٹھكانا جهنم هوگا۔
حضرت نوح نے اپني قوم كو لمبي مدت تك هر طرح سمجھايا۔ اس كے بعد يه هوا كه كچھ لوگوں نےآپ كي بات ماني، اور زياده لوگوں نے آپ كي بات كو ماننے سے انكار كرديا۔ اس كے بعد وه وقت آيا جب كه يه ظاهر هوگيا كه اب مزيد كوئي ماننے والا نهيں هے، بلكه معاشره اتنا زياده بگڑ چكا هے كه اس ميں جو شخص پيداهوگا، وه صرف غير صالح بن كر اٹھے گا۔
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم کے مطابق، دعا کی اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کو طوفانِ نوح کہا جاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے لوگ اِس کشتی میں سوار ہوئے اور بقیہ تمام لوگ طوفان میں غرق کر دئے گئے۔ صالح لوگوں کو بچا کر ابدی جنت کا مستحق قرار دیاگیا اور غیر صالح لوگ ہلاک ہو کر ابدی جہنم کے مستحق بن گئے۔
طوفانِ نوح کے اِس معاملے کی حیثیت ایک تاریخی مثال کی تھی۔ اللہ نے حضرت نوح کے واقعے کی صورت میں یہ مثال قائم کردی کہ آخری زمانے میں جب انسانی تاریخ کے خاتمے کا وقت ہوگا، اُس وقت دوبارہ اسي طرح کاايك اور زیادہ بڑا زلزله خيز طوفان آئے گا جس کو قرآن میں قیامت کا نام دیاگیا ہے۔ قیامت کے بعد خدائی منصوبے کے مطابق، حیاتِ انسانی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ یہ آخرت کا دور ہوگا جو کہ کامل بھی ہوگا اور ابدی بھی۔
حضرت آدم پہلے انسان بھي تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ نے حضرت آدم کو جو شریعت دی تھی، اُن کی بعد کی نسلیں اُس شریعت پر باقی رہیں، مگر دھیرے دھیرے ان کے اندر زوال آیا۔ یہ زوال شخصیت پرستی (personality cult) کی صورت میں پیدا ہوا۔
ابتداء ً یہ ہوا کہ وہ اپنے بزرگوں، ودّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر کے مرنے کے بعد ان کی تعظیم کرنے لگے۔ تعظیم کے بعد ان کے اندر اپنے بزرگوں کی تقدیس کا عقیدہ پیداہوا۔ دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ انھوں نے اپنے اِن بزرگوں کے مجسمے بنائے اور پھر ان کی عبادت شروع کردی (71:23)۔
جب بگاڑ کی یہ حد آئی تو اللہ نے ان کے درمیان اُنھیں کی قوم سے پیغمبر نوح کو پیدا کیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق، پیغمبر نوح، حضرت آدم کی دسویں نسل میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طورپر لمبی عمر دی ، یعنی 950 سال۔ قرآن کی سورہ نوح (71)میں حضرت نوح کی دعوت کا خلاصہ بتایا گیا ہے۔ دوسرے انبيا كي طرح حضرت نوح کی دعوت بنیادی طورپر دوچیزوں کی طرف تھی — توحید، اور آخرت۔
مگر قوم کا بگاڑ اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر بقیہ افراد آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ قرآن میں اُن کی طرف سے جو قول نقل کیاگیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے:’’انھوںنے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ تم ہرگز نہ چھوڑنا ودّ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو‘‘۔ (71: 23)
یہ صورتِ حال ہمیشہ غلط تقابل (wrong comparison) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ قومِ نوح کے سامنے ایک طرف، ان کا حال کا پیغمبر تھا جواُن کو بظاہر ایک عام آدمی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ دوسری طرف، ان کے ماضی کے قومی اکابر تھے، جن کے گرد اُن کےقُصّاص (story tellers) نے مفروضہ کہانیوں کا خوش نما ہالہ بنا رکھا تھا۔ اِس خود ساختہ تقابل میں اُن کو حضرت نوح ایک معمولی انسان نظر آتے تھے(هود، 11:27)۔ اس کے بر عکس، ماضی کی شخصیتیں ان کو بہت بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ یہی غلط تقابل تھا جس نے اُن کے اندر وہ بے اصل یقین (false conviction) پیدا کردیا جس کی بنا پر وہ اپنے معاصر پیغمبر کا انکار کردیں۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قوم کے اندر اب مزید کوئی فرد ایمان لانے والا نہیں ہے تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس علاقے میں ایک عظیم سیلاب لایا جائے جس میں صالح افراد بچاليے جائیں اور غیرصالح افراد سب کے سب ہلاک کردئے جائیں۔ اثرياتي شواهد كے مطابق، قومِ نوح کا مسکن دجلہ اور فرات کے درمیان کا وہ علاقہ تھا جس کو تاریخ میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا هے۔