اجتہاد کا فقدان
امت کےدورِ زوال کے بارے میں ایک حدیث یہ ہے:تنزع عقول أكثر ذلك الزمان، ويخلف له هباء من الناس لا عقول لهم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور گردوغبار کی طرح كے لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہاںمجبوری کی صورتِ حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (22:27)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کی حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم امت کے عوام یا علما اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد(violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر موثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے بارے میں بتاتی ہیں : ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين، أحدهما أيسر من الآخر، إلا اختار أيسرهما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقہ کار کے مقابلے میں پر امن طریقہ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقہ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقہ کار پر عمل کریں۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔