متعلق اور غیر متعلق میں فرق کرنا
ری پلاننگ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ پلاننگ کے دوران کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو پلاننگ کے عمل (process) میں رکاوٹ ڈالنے والا ہو۔ تاکہ پلاننگ کا عمل بلاتوقف (non-stop) چلتا رہے۔
اس کی ایک مثال کعبہ کی تعمیر کامسئلہ ہے۔ کعبہ کی تعمیرِ اول پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل نے تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں مکہ میں کی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ مکہ میں تیز بارش ہوئی ، اس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ اس وقت مکہ پر مشرکین کا غلبہ تھا۔ انھوں نے5 ویں صدی عیسوی میں کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ اہل مکہ نے کسی سبب کے تحت کعبہ کی تعمیر ثانی کے وقت اس کو چھوٹا کردیا۔ انھوں نےاس کے ایک حصے کو غیر مسقف حالت میں کھلا چھوڑدیا، جو کہ ابھی تک اسی طرح موجود ہے۔ کعبہ کےابراہیمی نقشے کے مطابق، کعبہ ایک مستطیل (rectangle) صورت کا تھا۔ تعمیر نو کے وقت قریش کے لوگوں نے کعبہ کو چوکور بنادیا۔جب کہ اس سے پہلے وہ مستطیل تھا۔اس کے کچھ حصے کو انھوں کھلا چھوڑ دیا، جس کو اب حطیم کہا جاتا ہے۔کعبہ کے مقابلے میں حطیم کا ایریا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
کعبہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعائشة:الم تري أن قومك لما بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم؟ فقلت:يا رسول الله، ألا تردها على قواعد إبراهيم؟ قال:لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت (صحیح البخاری، حدیث نمبر1583)۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ سے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کی عمارت بنائی، تو ابراہیم کی بنیاد سے اسے چھوٹا کردیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ پھر آپ اس کو ابراہیمی بنيادکے مطابق کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہاری قوم کے کفر کا زمانہ ابھی حال ہی میں نہ گزرا ہوتا تو میں ایسا کردیتا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی توجیہ ابن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں کی ہے: رعايةً لقلوب قريش (فتح الباری، 3/457)۔یعنی قریش کے قلوب کی رعایت میں ایسا کیا۔
اصل یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ جب کسی مذہبی یادگار پر لمبی مدت گزرجائے تو لوگوں کی نظر میں وہ مقدس بن جاتی ہے۔ اس میں ادنیٰ تغیر کو وہ برداشت نہیں کرتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اگر کعبہ کی عمارت میں تغیر کرتے تو اندیشہ تھا کہ لوگ اس کا تحمل نہ کرسکیں گے، اور اس کا منفی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں توحید کا دین قائم کرنے کا جو عمل جاری ہے، وہ درمیان میں جپرڈائز (jeopardize) ہوجائے گا، اور اصل مشن کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اسلام میں رعایتِ عوام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ،9:60 ) کہا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی مشن کے دوران ہمیشہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے درمیان فرق کیا۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ ایک غیر اہم چیز کی خاطر آپ اہم کو نظر انداز کردیں۔ آپ کے سامنے ہمیشہ اصل نشانہ ہوتا تھا، اور جو چیز اصل نشانے کی نسبت سے غیر اہم ہو، اس کو آپ ہمیشہ نظر انداز کرکے اصل نشانے پر قائم رہتے تھے۔ یہ اصول ایک دائمی اصول ہے، اور اسی اصول کا نام وزڈم ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف نے وزڈم کی یہ تعریف دریافت کی ہے:
Wisdom is the ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
ڈاکٹر مائکل ہارٹ (Dr. Michael H Hart) نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100) میں بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔ آپ کی اس عظیم کامیابی کا راز یہی تھا۔ آپ نے اپنے مشن میں ہمیشہ اس وزڈم کو اختیار کیا۔