بائبل اور قرآن کا فرق
حضرت نوح اور ان کی کشتی کا ذکر بائبل میں بھی آیا ہے اور قرآن میں بھی، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ بائبل میں كشتئ نوح کا ذکر صرف ماضی کے ایک قصہ کے طورپر آیا۔ قرآن میں واقعہ بیان کرنے کے علاوہ، ایک اور بات بتائی گئی ہے، وہ یہ کہ حضرت نوح کی کشتی اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت محفوظ رکھی گئی اور بعد کے زمانے میں ظاہر ہو کر وه لوگوں کے لیے سبق بنے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیتیں يهاں درج كي جاتي ہیں:
فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15)۔ یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔ یعنی ہم نے اس (کشتی) کو نشانی کے طورپر باقی رکھا، تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔
إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ- لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (69:11-12)۔یعنی جب پاني حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوا ر کیا، تاکہ ہم اس (کشتی) کو تمھارے لیے یاددہانی کا ذریعہ بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اس کو یاد رکھیں۔
قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں اتریں۔ اُس وقت ساری دنيامیں کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت نوح کی کشتی کس مقام پر محفوظ ہے، عرب سے عجم تک ہر ایک کے لیے یہ واقعہ پوری طرح ايك غير معلوم واقعه تھا۔
ایسی حالت میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ نوح کی کشتی محفوظ ہے اور وہ مستقبل میں بطور نشاني ظاہر ہونے والی ہے۔ اِس اعلان کی حیثیت ایک غیر معمولی پیشین گوئی کی تھی۔ ہزار سال سے زیادہ مدت تک کشتی نوح کے بارے میں بدستور لاعلمی کی حالت باقی رہی۔ بیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار ہوائی تصویر کشی (arial photograhpy) کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑ کے اوپر کشتی جیسی ایک چیز موجود ہے۔
کشتی نوح كایہ ظہور خداکے ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے، بظاهر وہ انسانی تاریخ کے خاتمے کا ایک ابتدائی اعلان ہے۔ کشتي نوح علامتی طورپر بتارہی ہے کہ دوبارہ ایک آخری اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے۔ اِس طوفان کے بعد انسان کا ایک دورِ حیات ختم ہوجائے گا اور انسانی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ پہلا دور عارضی تھا اور دوسرا دور ابدی ہوگا۔ پهلے دورِ حیات کا مقام موجودہ دنیا تھی، دوسرے دورِ حیات کا مقام آخرت کی دنیا ہوگی۔
قرآن ميں بتاياگيا تھا كه حضرت نوح كي كشتي محفوظ هے۔اِس كا محفوظ هونا بے مقصد نهيں هوسكتا، اِس ليے يه كهنا درست هوگا كه كشتي اِس ليے محفوظ كي گئي هے، تا كه وه بعد كو قيامت سے پهلے ايك تاريخي نشاني كے طور پر ظاهر هو۔ اب سوال يه هے كه كشتي نوح كے اس ظهور كي كيا صورت هوگي۔ غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه غالباً كشتي نوح كے اِسي ظهورِ ثاني كا واقعه هے جس كو قرآن (27:82) اور حديث(صحيح مسلم، حديث نمبر 2941) ميں ’’دابّة‘‘ كے لفظ سے تعبير كياگيا هے۔
دابّہ دراصل کشتی نوح کا تمثیلی نام ہے۔ دابّہ کے لفظی معنی هيں— رینگنے والا۔ کوئی بھی چیز جو رينگنے كي رفتارسے چلے، اس کو دابّہ کہاجائے گا۔ کشتی نوح پانی کے اوپر رینگ کر چلی تھی، اس لیے يه قياس كرنا درست هوگاكه تمثیلی طورپر اس کو دابّہ کہہ دیا گیا۔