تخلیق کے ادوار
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے کائنات کو چھ ادوار (periods)کی صورت میں بنایا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں سات بار آیا ہے۔ ان آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے:اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ(32:4)۔ یعنی اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں ۔
ان آیات میں چھ ایام سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں۔ دور کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کو بیک وقت دفعۃً پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو اسباب و علل (cause and effect) کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ تخلیق کی یہ صورت اس لیے اختیار کی گئی تاکہ انسان اپنی عقل کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرسکے، اور تخلیق کی حکمت کو معلوم كركے اپنے لیے ذہنی تشکیل کا سامان بنا سکے۔
انسانی علوم کے ذریعہ کائنات کا جو مطالعہ کیا گیا ہے،ان کو لے کر اگر ان چھ ادوار کو متعین کیا جائے تو وہ یہ ہونگے:
(1) بگ بینگ (big bang)
(2) لٹل بینگ (little bang) یا سولر بینگ (solar bang)
(3) واٹر بینگ (water bang)
(4) پلانٹ بینگ (plant bang)
(5) انیمل بینگ (animal bang)
(6) ہیومن بینگ (human bang)
یہ تاریخ کے چھ معلوم ادوار ہیں۔ سائنسی اندازے کے مطابق چھ ادوار کی یہ مدت تقریبا تیرہ بلین سال ہے۔اس مدت میں موجودہ کائنات عدم سے وجودمیں آئی، اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئےاپنی موجودہ صورت میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کے بعد انسان کی جو تاریخ بنی، اور جس طرح وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے، اس کا مختصر بیان یہاں درج کیا جاتا ہے۔