سبق کا پہلو

ایک طويل روایت میں فرشتے کی زبان سے یہ الفاظ آئے ہیں:وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ (صحيح البخاري،حدیث نمبر7281)۔یعنی، محمد، انسانوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ف ر ق کا لفظی مطلب ہے:الفصل بین الشیئین)دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا( ۔

اِس حديثِ رسول كا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسا مشن جاری ہوگا، جو صالح اور غیر صالح افراد کو ایک دوسرے سے جدا کردے، تاکہ اللہ ایک گروہ کے لیے انعام کا فیصلہ فرمائے اور دوسرے گروہ کے لیے سزا کا فیصلہ۔

یہ بات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں ہے، یہی معاملہ تمام پیغمبروں کا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب اِسی مقصد کے لیے آئے، تاکہ ان کے ذریعے ایک ایسی تحریک چلائی جائے، جو انسانوں کو ایک دوسرے سے چھانٹ دے، صالح افراد الگ ہوجائیں اور غیر صالح افراد الگ، تاکہ اِس کے بعد ایک معلوم حقیقت کے طورپر لوگوں کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے۔

قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، اُن میں سے کم از کم دو ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اِس معاملے میں ایک تاریخی شہادت (historical evidence) چھوڑ ی، جو لوگوں کے لیے مستقل طورپر منصوبہ الٰہی کے بارے میں تاریخی یاد دہانی (historical reminder) کا کام کرتی رہے۔

اِس معاملے میں ایک تاریخی مثال وہ ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ سے ہے۔ حضرت موسیٰ نے قدیم مصر میںاپنا دعوتی کام انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں آخر کار وہ وقت آیا، جب کہ دو گروہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ ایک، بنی اسرائیل کا گروہ، جس نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو قبول کیا اور دوسرے، فرعون اور اس کے ساتھی، جنھوں نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو رد کردیا۔ اِس کے بعد قانونِ الٰہی کے مطابق، ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی الگ کرکے بچا ليے گئے، اور فرعون اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق کرديے گئے۔

اِس معاملے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب آخری وقت آگیا، اور فرعون غرق ہونے لگا، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا:فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً  (10: 92)۔ یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قول پورا ہوا، اور حضرت موسیٰ كے ہم عصر فرعون کی لاش کو حنوط کاری (mummification) کے ذریعے اہرامِ مصر میں محفوظ کردیا گیا۔ فرعون کا یہ جسم اہرامِ مصر میں موجود تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں کچھ مغربی ماہرین نے اس کو نکالا اور کاربن ڈیٹنگ (carbon datinhg) کے ذریعے اس کی تاریخ معلوم کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسم اُسی فرعون کا ہے، جو حضرت موسیٰ کا معاصر (contemporary) تھا۔

فرعون کے جسم کا اِس طرح محفوظ رہنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک تاریخی واقعے کی علامتی مثال ہے۔ فرعون کا یہ جسم جو قاہرہ (مصر) کے میوزیم میں محفوظ ہے، وہ اپنی خاموش زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ آخر کار انسان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، وہ یہ کہ خدائی منصوبے کے تحت، صالح بندوں کو غیرصالح بندوں سے الگ کردیا جائے اور پھر صالح بندوں کو ابدی جنت میں عزت کی جگہ دی جائے اور غیرصالح لوگوں کو ابدی جهنم میں ذلت کی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

اس قسم کی دوسری مثال حضرت نوح کی ہے۔ حضرت نوح قدیم عراق (Mesopotamia) کے علاقہ میںآئے۔ وہ بہت لمبی مدت تک وہاں کے لوگوں کو بتاتے رہے کہ اللہ نے تم کو پیدا کرکے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ تمھارا امتحان لے رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہا ہے، اور کون غلط استعمال کررہاہے۔

جب امتحان کی مدت پوری ہوگی تو خدا کا فیصلہ ظاہر ہوگا، اور اچھے انسان اور برے انسان دونوں چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کردئے جائیں گے۔ اس کے بعد اچھے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے گا اور برے لوگوں کو جہنم ميں۔

طوفان سے پهلے حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے پیشگی طورپر ایک بڑی کشتی بنالی تھی۔ حضرت نوح اور آپ کے ماننے والے لوگ کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ لوگ اس کشتی کے ذریعے سیلاب کے اوپر تیرتے ہوئے محفوظ رہے۔

 اُس وقت اللہ نے جو کہا تھا، اس كو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (11:48)۔ يعني کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا۔

یہ بات پانچ ہزار سال پہلے کی ہے، جب که دنیا میں نہ کوئی تہذیب تھی اور نہ کوئی ٹکنالوجی۔ یہ بات اگرچہ بائبل اور قرآن میں بتائی گئی تھی، لیکن لوگ اس کو مذہبی افسانہ (religious myth) سمجھتے تھے،مگر عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یہ دونوں باتیں ایک معلوم واقعہ بن گئیں۔ ایک طرف، عراق اور شام کے علاقے میں ایسے آثار ملے جو بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک بهت بڑا سیلاب آیاتھا، اور دوسری طرف كشتي نوح جو بھاری برف کے نیچے دبی ہوئی تھی، وہ برف کے پگھلنے سے سامنے آگئی۔ یہ واقعہ ترکی کی مشرقی سرحد پرواقع پہاڑ کے اوپر پیش آیا۔

بیسویں صدی کے وسط تک اِس پورے معاملے کو فرضی کہانی سمجھا جاتا تھا، مگر اب خالص تاریخی شواہد کی بنا پر یہ مان لیا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایک ایسا بڑا سیلاب آیا تھا جو نہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ اس کے بعد۔ یہاں اِس سلسلے ميں تفسیر ماجدی سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے:

The story of Noachion deluge, so long dismissed as legendary, has at last come to be recognized as 'hisotorical disaster' for which material evidence has been found in the soil of Ur.  (Woolly,  ‘Abraham’,  p. 170)

Archaelogical evidence has established the reality of the Flood.  (Marston, ‘The Bible Comes Aline’,  p. 33)

Both Sumerian and Hebrew legends speak of a flood which destroyed the habitable world as they knew it.  (Lt. Col. Wagstaff, a distinguished explorer)

يهي معاملہ کشتی نوح کا ہے۔ قدیم زمانے میں کشتی نوح کا معاملہ ایک مذہبی افسانہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب وہ ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے۔

کوئی بھی شخص ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑی سلسلے کے اوپر ہوائی پرواز کرکے کشتی کو دیکھ سکتا ہے۔ غالباً بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ مقام ٹورسٹ میپ (tourist map) میں خصوصي جگہ حاصل کرلے۔خبروں سے معلوم هوا هے كه ترك گورنمنٹ اِس علاقے كو سياحتي مقام كے طور پر ڈيولپ كرنے كا منصوبه بنارهي هے۔

اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جب انسانی تاریخ کے خاتمہ کا وقت آئے گا اورآخرت کا دور شروع ہوگا تو فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا۔ یہ صور آواز کی صورت ميںنئے دور کی آمد کا اعلان ہوگا۔ کشتی نوح کا ظہور اسی قسم کا ايك واقعہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ صور اسرافیل كے ذريعے جس حقيقت کا اعلان زبانِ قال کی صورت میں كيا جائے گا، کشتی نوح زبانِ حال كي صورت ميں اُسي حقيقت كو بيان كرے گي۔

Two members of the search team that claims to have found Noah’s Ark on Mount Ararat in Turkey responded to skepticism by saying that there is no plausible explanation for what they found other than it is the fabled biblical boat that weathered a storm that raged 40 days and 40 nights and flooded the entire Earth. Noah's Ark Ministries International  (NAMI) held a press conference April 25, 2010  in Hong Kong to present their findings and say they were   "99.9  percent" sure that a wooden structure found at a 12,000-ft. elevation and dated as 4,800 years old was Noah’s Ark. Noah's Ark Ministries International is a subsidiary of Hong Kong-based Media Evangelism Limited, founded in 1989  to publish multimedia for evangelizing. "We don't have anything to hide."  says Clara Wei, who is a team member. She says that massive wooden planks, some 20 meters long, were found in wooden rooms and hallways buried in the ice atop Mount Ararat in Eastern Turkey. People could not carry such heavy wood to such a height, nor can vehicles access such a remote location on the mountain. Turkish officials from Agri Province, the location of Mount Ararat, also attended this week’s press conference in Hong Kong. Lieutenant governor Murat Güven and Cultural Ministries Director Muhsin Bulut, both provincial officials, believe the discovery is likely Noah’s Ark, according to the announcement posted on the team's website. Culture and Tourism Minister of Turkey, Ertugrul Gunay, welcomed the finding and said it could boost tourism, according to local newspaper today's Zaman. (www.csmonitor.com)

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom