شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تھا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے معروف لغوی لفظ قتل استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ (2:154)۔ يعني اور جو لوگ الله كي راه ميں قتل كيے جائيں ان كو مرده مت كهو۔اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے میں جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر ہوگا، تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں صحابہ میں سے ستر آدمی مارے گئے۔ صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے: أنس بن مالك أنه قال:قُتِل منهم يوم أحُد سبعون (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4078)۔ یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحابِ رسول میں سے ستر آدمی قتل ہوئے۔
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسلام میں مستند زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بعد کے زمانے میں دھیرے دھيرے ایسا ہوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بھی تبدیلی آئی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف ہوگیا۔ اس کے بجائے، شہادت اور شہید کا لفظ جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام ہوگیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا۔مثلا حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، وغیرہ۔ اصحابِ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا، لیکن کسی کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔ مثلا َ عمر بن الخطاب شہید، عثمان بن عفان شہید، علی ابن ابی طالب شہید، سعد بن معاذ شہید، وغیرہ۔ صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساتھ لکھا اور بولا گیا، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساتھ۔ جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج ہوا۔ چنانچہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچھ روایات کے اوپریہ باب قائم کیا ہے: باب لا يقول فلان شهيد (کتاب الجهاد والسیر)۔ يعني باب يه نه كهاجائے كه فلاں شهيد هے۔
یہ سادہ بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساتھ پکارا جائے: اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَائِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ( 33:5)۔يعني ان كو ان كي آبائي نسبت سے پكارو، يه الله كے نزديك زياده منصفانه بات هے۔ نام کے ساتھ شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا،اشخاص کے بارے میں غیر واقعی ذہن بنانے والا عمل ہے۔ یہ طریقہ اسلامی آداب کے مطابق نہیں۔
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجودہ زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کا اصل سبب یہی ہے۔ جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک ہوتے ہیں، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فوراً جنت میں داخل ہو گئے۔
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات (colonialism) کے دور میں رائج ہوا۔ اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعداس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندرعام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری ہوا۔ اس کے بعدبتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں، وہ شہید ہوں گے، اور بلا حساب کتاب فوراً جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تھا، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردِّعمل کی آخری تباہ کن صورت وہ ہے، جو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing) کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچھ علماء کی طرف سے غلط طور پراس کو استشہاد (طلبِ شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ لیکن شہادت کا اصل کام ، دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں، نہ مسلم علماء کے اندر، نہ مسلم عوام کے اندر۔ شہادت کے اس خودساختہ تصور کے تحت وہ جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں، وہ ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں، اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔