دابہ کا نکلنا
قرآن کی سورہ النمل میں قیامت سے پہلے کی ایک نشانی کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیاہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82) اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک دابّہ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماري نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قرآن کی یہ آیت 1400سال سے غیر واضح بنی ہوئی تھی، لیکن حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں حال میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس كي روشني ميں محفوظ طور پر يه استنباط كيا جاسكتا ہے کہ دابہ سے مرادغالباً حضرت نوح کی کشتی ہے، یعنی پانی كے اوپر رینگنے والا دابه۔ قرآن میں حضرت نوح کی کشتی کو ایک نشانی (آیت) کہاگیا ہے۔ اِسي طرح قرآن میں دابہ کو بھی ایک آیت کہاگیا ہے۔ کشتی نوح اور دابه کے درمیان یہ مشابہت بہت بامعنی ہے۔ آغازِ انسانی سے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ ہر دور میں خدا کے پیغمبر آئیں اور انسان کو بتائیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے، مگر انسان نے اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کیا کہ اس نے پیغمبروں کو نظرانداز کیا، حتی کہ انسانیت کی مدون تاریخ (recorded history) میں پیغمبروں کا اندراج نہ ہوسکا، پیغمبر عقیدہ کا معاملہ بن گئے، نہ کہ تاریخی طورپر ثابت شدہ حقيقت كامعاملہ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے بظاہر تخلیق (creation)کو جانا، مگر وہ مقصدِ تخلیق (purpose of creation) سے بالکل بے خبر رہا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا کہ اِس مِتھ (myth) کو توڑ دیا جائے گا۔ اور اِس مِتھ کو توڑنے کا ذریعہ ایک پیغمبر کی ایک تاریخی نشانی کا ظہور ہوگا، جس کا ذکر بائبل اور قرآن دونوں میں موجود هے۔اِس طرح مذهبي عقيده ايك علمي مسلّمه بن جائے گا۔
جيسا كه عرض كيا گيا، دابه کا لفظی مطلب ہے رینگنے والا۔حضرت نوح کی کشتی پانی پر رينگنے والی سواری تھی۔ وہ طوفان کے اوپر چلتی ہوئی ترکی کے سرحدی پہاڑ ارارات (Ararat) پر پہنچ گئی۔
اب اكيسویں صدی ميں کشتی نوح کا یہ معاملہ ایک واقعہ بن کر سامنے آگیا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ وہ پوری طرح منظر عام پر آجائے ،اور پھر زبانِ حال سے کلام کرکے لوگوں کو بتائے کہ پیغمبر کی جس نشانی کا تم انکار کرتے رہے، وہ اب تمھارے سامنے عیاناً موجود ہے۔
حضرت نوح نے براہِ راست طورپر اپنی قوم سے اور بالواسطہ طورپر تمام انسانیت كو بتايا تھا کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق، مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ سياره ارض پر انسان کا قیام ایک مقرر مدت تک ہے (نوح، 71:4)۔ یعنی ایک مقرر وقت (apppointed time)تک دنیا میں حالتِ امتحان میں رہنا اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے سامنے حساب کے لیے پیش کردیا جانا۔ یہی زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت نوح نے اور دوسرے پیغمبر وں نے انسان کو بتایا، لیکن انسان نے اس پيغمبرانه انتباہ (warning)کو اپنے ریکارڈ سے خارج کردیا۔
دابہ کے ظہور کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ لیکن دونوں جگہ اس کا ذکر مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر ہے، اِس لیے دابہ کے بارے میں شارحین اور مفسرین کی مختلف رائیں ہیں۔ دابه كے بارے ميںمزید مطالعے کے بعد اب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، اس کو میں نے اِس مضمون میں درج کردیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، یہی رائے مجھ کو زیادہ درست معلوم ہوتی ہے: هذا ما عندي، والعلم عند الله۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی پیغمبر کی قوم پر انکار کے نتیجے میں عذاب آیا۔ مگر دوسرے تمام پیغمبروں کے معاملے میں جو صورت اختیار کی گئی، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوا تو پیغمبر کے ماننے والوں سے کہاگیا کہ تم بستی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ جب وہ بستی کو چھوڑ کر دور کے علاقہ میں گئے تو مقامی طورپر شدید طوفان یا زلزلہ کے ذریعے منکر قوم کو تباہ کردیا گیا، مگر حضرت نوح کی قوم کے معاملے میں ایک بالکل مختلف طریقہ اختیا رکیا گیا۔
حضرت نوح نے لمبی مدت تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا۔ کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور زیادہ تر لوگ منکر بن گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو حکم دیا کہ تم ایک بڑی کشتی بناؤ۔ اس میں اهلِ ایمان کو اور اسی کے ساتھ مویشیوں کے جوڑوں کو سوار کرو۔ جب یہ سب ہوگیا اور لوگ کشتی میں سوار ہوچکے تو بہت بڑا سیلاب آیا۔ پانی زمین سے بھی نکلا اور آسمان سے بھی برسا۔ پانی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس کی سطح پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ گئی۔
اِسی مختلف انداز کی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت نوح کی کشتی بعد کی انسانی نسلوں کے لیے محفوظ رہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ہوا کہ کشتی زمین سے اوپر اٹھ کر پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی۔
کشتی نوح کے بارے میں جو بات قرآن میں کہی گئی ہے، اس کی مزید تفصیل دابہ والی آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ اِس آیت میں یہ الفاظ ہیں:أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔يعني ہم ان کے لیے زمین سے ایک دابّہ (غیر انسانی مخلوق) نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا، کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس كا مطلب يه هے كه دابہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔
اِس آیت میں آیات) نشانیوں) سے مراد پچھلے ادوار میں اللہ کے پیغمبروں کا ظہور ہے۔ اللہ کا ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہوتا تھا، مگر قدیم زمانے میں پیغمبروں کے معاصرین نے پیغمبروں کا انکار کیا۔ اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِس طرح کیاگیا ہے:مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوابِهِ يَسْتَهْزِءُونَ(36:30)يعني جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔
پیغمبروں کا آیتِ الٰہی ہونا اُن کے مخاطبین کے لیے مجرد ايك نظری شہادت (theoretical evidence) کے ہم معنی ہوتا تھا، اِسی لیے وہ ان کی تکذیب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پیغمبر اور پیغمبری کے حق میں ایک مادی شہادت (material evidence) قائم ہو، اورکشتی نوح بمعنی دابہ غالباًاِسي قسم کی ایک مادی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح ظاہر ہو کر بزبانِ حال یہ کہہ رہی ہے کہ اے انسانو، تم نے پیغمبر نوح اور ان کے خدائی مشن کا انکار کیا۔ تم نے اپنی تاریخ سے اُن کو اِس طرح حذف کیا جیسے کہ کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ اب عیاناً وہ تمھارے سامنے اِس طرح ظاہر ہوچکی ہے کہ اس کا انکار تمھارے لیے ممکن نہیں۔ نظری شہادت کا معاملہ اختیاری اعتراف کي حیثیت رکھتاتھا، مگر مادی شہادت کا معاملہ جبری اعتراف کا درجہ رکھتا ہے۔ اب انسان کے لیے اِس بات کا کوئی منطقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ پیغمبر اور پیغمبرانہ مشن کے معاملے میں انکار کا طریقہ اختیار کرے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح کا ظہور دین ِ خداوندی کے لیے ایک عظیم تاریخی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ واقعہ تمام تر مسیحی علما اور یہودی علما كي تحقيقات كے ذريعے انسانی علم میںآیا۔ کیوں کہ قرآن کے علاوہ، کشتی نوح کا ذکر بائبل (Old Testament) میں موجود تھا، اِس لیے وہ مسیحی علما اور یہودی علما کا موضوعِ تحقيق بن گیا۔ انھوں نے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی، اور پھر اپنے نتائج ِتحقیق کو شائع کرکے اس کو عام کردیا۔