الہامی علم کی ضرورت
اللہ تعالی نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کی ہدایت کا ا نتظام کیا۔ پیغمبروں پر وحی آتی تھی، اور پھر وہ لوگوں کو اس علم سے واقف کراتے تھے۔ پیغمبرانہ رہنمائی کی ضرورت کیوں ہے۔ اس کا جواب قرآن میں ان الفاظ ميں دیا گیا تھا :وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔ یعنی اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اس آیت میں روح سے مراد وحی ہے۔ اس آیت میں وحی کی ضرورت پر یہ دلیل دی گئی ہے کہ انسان کو تھوڑا علم دیا گیا ہے، وہ خود سے اپنی ہدایت کو دریافت نہیں کرسکتا۔ اس لیے وحی کے ذریعہ اس کو ہدایت نامہ بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ کامل رہنمائی کی روشنی میں دنیا میں اپنی زندگی گزار سکے۔ قرآن کا یہ بیان بظاہر صرف ایک بیان (statement) ہے۔ اس بیان کی عقلی تفسیر نزول قرآن کے وقت موجود نہ تھی۔ بعد کو جب سائنس کا علم وجود میں آیا، اور زندگی اور کائنات کے بارے میں سائنسی مطالعہ شروع ہوا تو ابتداء ًانسان نے سمجھا کہ اب ہمیں پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اب انسان خود اپنے علوم کے ذریعہ اپنے لیےکامل رہنمائی کو دریافت کرسکتا ہے۔ یہی وہ ذہن تھا، جس کے تحت برٹش فلسفی جولین ہکسلے (Julian Huxley) نے ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone (1941)
مگر کئی سو سال کی تحقیق کے بعد خود سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا کہ سائنس کے ذریعہ انسان کے لیے کامل ہدایت نامہ دریافت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا:
The Limitations Of Science by J.W.N. Sullivan ( 1973)
اس کتاب میں مصنف نے تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ سائنس کی محدودیت كيا ہے۔ سائنس سچائی کا صرف جزئی علم دے سکتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
اس تجربے کے بعد اب انسان مجبور ہے کہ وہ پیغمبر کی اہمیت کو تسلیم کرے، اور یہ مانے کہ اس معاملے میں پیغمبر کے سوااس کے پاس کوئی اور بدل نہیں ہے۔