شہادت کا تصور

 قرآن میں  شہادت کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں  160 بار آیا ہے۔ہر جگہ وہ گواہی (witness) کے معنی میں  ہے۔ قرآن میں  شہادت کا لفظ مختلف نسبت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر بار وہ اسی گواہی کے مفہوم میں  آیا ہے، کسی اور مفہوم میں  نہیں۔

قرآن کے مطابق ، پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر اللہ کا گواہ بنے۔ وہ پر امن فکری جدوجہد کے ذریعے لوگوں کو بتائے کہ اللہ نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے، اور آخرت میں  ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ہر پیغمبر کا مشترک مقصد یہی تھا، اور ہر پیغمبر نے شہادت کے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی انداز میں  انجام دیا۔

پیغمبر ِ اسلام صلي الله عليه وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، لیکن کارِنبوت بدستور باقی ہے۔ خاتم النبیین کے بعد تمام انسانی نسلوں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ ان کو پیغمبر کی نیابت میں  اللہ کا پیغام بدستور پہنچایا جائے، اور قیامت تک پہنچایا جاتا رہے۔ یہ کام بعد کے زمانے میں  امتِ محمدی کو انجام دینا ہے۔ یہ گویا نبی کے بعد نبی کے کارِ شہادت کا تسلسل ہے۔ اس عمل کی درست ادائیگی کی شرط یہ ہے کہ اس کو امانت اور خیرخواہی (الاعراف، 7:68)کی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے۔

امانت یہ ہے کہ اصل پیغامِ خداوندی میں  کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ کی جائے، اور نصح یہ ہے کہ اس کام کویک طرفہ خیرخواہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تاکہ مخاطب کے لیے انکار کا کوئی معقول سبب باقی نہ رہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom