فطرت کی تسخیر
نیچر کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو اُس سے مراد پوری دنیا ئے مخلوقات ہوتی ہے:
Nature: The Sum total of all things in time and sapce; the entire physical universe.
یہ نیچر ہمیشہ سے موجود تھا، لیکن قدیم زمانے میں انسان شرک میں مبتلا ہوگیا۔ شرک دراصل مظاہرِ فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ چوںکہ انسان نیچر کو معبود کی نظر سے دیکھتا تھا، اِس لیے وہ اس کو تحقیق وتفتیش (exploration) کی نظر سے نہ دیکھ سکا۔ اِس طرح، شرک ایک مستقل ذہنی رکاوٹ (mental block) بن گیا۔ علمی دلائل جن کو قرآن میں آیات (نشانیاں) کہاگیا ہے، وہ عالم فطرت میں موجود تھیں، مگر وہ ظاہر ہو کر سامنے نہ آسکیں۔
قرآن میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِ(8:39)۔يعني اور ان سے لڑو يهاں تك كه فتنه باقي نه رهے اور دين سب الله كے ليے هو جائے۔کچھ مفسرین کے مطابق، اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد شرک ہے۔ یعنی پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو حکم دیاگیا کہ شرک کے سیاسی اور اجتماعی غلبےکو ختم کرو، خواہ اربابِ شرک کی جارحیت کی بنا پر اُن کے مقابلے میں جنگ کرنا پڑے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیغمبر اوراصحابِ پیغمبر کی کوششوں کے نتیجے میں شرک کا سیاسی اور اجتماعی غلبہ دنیا سے ختم ہوگیا، اور توحید کو غلبہ حاصل ہوگیا۔(اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیےراقم الحروف کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔
اِس کے بعد دنیا میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ ایک لفظ میں اس کو فطرت کی پرستش (nature worship) کے بجائے، فطرت کی تسخیر کا عمل کہاجاسکتا ہے، یعنی فطرت کو پرستش کے بجائے تحقیق اور مطالعہ کا موضوع بنانا۔ اِس کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ فطرت (نیچر) میں چھپے ہوئے دلائل سامنے آگئے۔ یہ تاریخی عمل اسلام کے ابتدائی زمانے میں شروع ہوا اور یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد وہ اپنی تکمیل تک پہنچا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی حقیقتوں کو روایتی دلائل کے بجائے سائنسی دلائل کے ذریعے ثابت شدہ بنایا جاسکے۔ چند مثالوں سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے:
1 - خدا کے وجود پر قرآن میں ایک دلیل یہ دی گئی تھی کہ :أَفِى اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ(14:10)۔یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پھاڑنے والا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں لفظ فاطر (پھاڑنے والا) خدا کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ کیوں کہ پھاڑنا ایک بالقصد مداخلت (intervention) کا عمل ہے، اور بالقصد مداخلت کاعمل ایک مداخلت کار(intervener)کاثبوت ہے۔اورجب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اپنے آپ خدا کا وجود (existence of God)ثابت ہوجاتا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں خدا کے وجود (existence of God)کا ایک علمی ثبوت موجود ہے، لیکن اِس علمی ثبوت کی وضاحت صرف دورِ سائنس کے بعد ہوئی۔بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں سائنس دانوں نے اُس کائناتی واقعے کو دریافت کیا، جس کو بگ بینگ (Big Bang) کہاجاتاہے۔ بگ بینگ کی دریافت کے بعد یہ ممکن ہوگیاکہ مذکورہ قرآنی آیت میں چھپے ہوئے سائنسی دلائل کو سمجھا جائے، اور اس کو استعمال کیاجائے۔
2 - قرآن کی سورہ الجاثیہ میں خدا کی ایک نعمت کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیا ہے:اَللَّهُ الَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِىَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِه(45:12)۔یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں کشتیاں چلیں۔
قرآن کی اِس آیت میں ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ قدیم روایتی زمانے کا انسان اس معاملے کو صرف ایک پُراسرار عقیدے کے طورپر لیتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں اس کی توجیہہ، ایک معلوم فطری قانون کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایک جدید سائنس ظہور میں آئی ہے، جس کو علم سکونِ سیّالات (science of hydrostatics) کہاجاتا ہے۔ اِس کے مطابق، پانی یا سیّال چیزیں ایک خاص قانون کے تابع ہیں، اور وہ تخفیفِ وزن (buoyancy) یا ٹھوس اَجسام کو پانی میں ڈالنے سے اس کو بحال رکھنے یا ابھارنے کی صلاحیت ہے:
(Buoyancy) The upward pressure by any fluid on a body, partly or wholly, immersed therein, it is equal to the weight of the fluid displaced.
اِس جدید سائنس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کی مذکورہ آیت کو خالص علم انسانی کی بنیاد پر سمجھا جاسکے، اور خدا کے اِس عظیم احسان پر یقین کیا جائے کہ اُس نے سمندر کو ایک محکم قانون کا پابند بنادیا۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ وسیع سمندروں کی سطح پر انسان کشتی اور جہاز کے ذریعے سفر کرسکے، اور وہ دور دراز منزل تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
3 - خدا کی ایک نعمت کا ذکر قرآن کی سورہ ق میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا (50:9)۔یعنی ہم نے آسمان سے مبارک پانی اتارا۔ قرآن کی اِس آیت میں خدا کی ایک عظیم نعمت کا ذکر ہے۔ قدیم زمانے میں یہ بات صرف ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتی تھی، مگر سائنسی دریافتوں کے بعد وہ ایک عظیم علمی دلیل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں بارش کا حوالہ دیاگیا ہے۔ بارش کیا ہے۔ بارش دراصل سمندر کا پانی ہے، جو بھاپ بن کر اوپر جاتا ہے اور پھر مخصوص قانون کے تحت دوبارہ وہ نیچے کی طرف لوٹتا ہے، جس کو بارش کہتے ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، سمندر کا پانی کھاری ہوتاہے۔ ایسا اِس لیے ہے کیوںکہ سمندر کے پانی میں 1/10 حصہ نمک شامل رہتا ہے۔ یہ نمک سمندر کے پانی میں تحفظی مادّہ (preservative) کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ چوں کہ پانی کے مقابلے میں نمک وزنی ہوتا ہے، اِس لیے جب سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاپ بن کر اوپر کی طرف اٹھتا ہے تو اس کا نمک کا حصہ نیچے رہ جاتا ہے۔ یہ اِزالۂ نمک (desalination) کا ایک عمل ہے، جو خدا کے قانون کے تحت ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ سمندر کا کھاری پانی ہم کوشیریں پانی کی صورت میں دست یاب ہوتا ہے۔ اِس عمل کے بغیر سمندر کا پانی ہمارے لیے قابلِ استعمال ہی نہ ہوتا۔
کولریج (Coleridge) ایک برٹش شاعرہے۔ اس کی وفات 1834 میں ہوئی۔ اس نے ایک نظم لکھی ہے۔ اِس نظم میں اس نے بتایا ہے کہ لکڑی کا بنا ہوا ایک جہاز سمندر میں سفر کے لیے روانہ ہوا۔ درمیان میں سخت طوفان آیا۔ اُس کے نتیجے میں جہاز ٹوٹ گیا۔ بہت سے لوگ پانی میں ڈوب گئے۔ ایک مسافر کو جہاز کا ایک تختہ مل گیا۔ وہ اِس تختے کے اوپر لیٹ گیا اور پانی میں تیرنے لگا۔ وہ پیاسا تھا، لیکن وہ اپنی پیاس بجھا نہیں سکتا تھا، کیوں کہ اُس کے آس پاس جو پانی تھا، وہ سب کا سب کھاری پانی تھا۔ شاعر اِس کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ— ہر طرف پانی ہے، لیکن ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں:
Water water everywhere, nor a drop to drink.
قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے پانی کو مبارک (purified) بنا کر آسمان سے اُتارا۔ یہ بلاشبہ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قدیم زمانے میں یہ معاملہ ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی دریافتوں نے اس کو ایک عظیم قابلِ شکر حقیقت بنا دیا۔
4 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بار سورج گرہن پڑا۔ اتفاق سے اُسی دن پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کا کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا۔ مدینہ کے لوگوں نے اُس کو دیکھا تو انھوں نے کہا — پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا، اِس لیے آج یہ سورج گرہن واقع ہوا ہے (کسفت الشمس لموت إبراهیم)۔ لوگوں کا ایسا کہنا قدیم زمانے کے رواج کی بنا پر تھا۔ کیوں کہ اُس زمانے میں لوگ اِسی قسم کے واقعات کو گرہن کا سبب سمجھتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو وہاں کی مسجدمیں اکھٹا کیا اور انھیں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَصَلُّوا، وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ(صحیح البخاري، حديث نمبر 1040)۔ یعنی کسی کے مرنے اور کسی کے جینے سے چاند اور سورج میں گرہن واقع نہیں ہوتا، بلکہ وہ خدائی نشانیوں میں سے دو نشانی ہیں۔ پس جب تم اُن کو دیکھو تو تم نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو، یہاں تک کہ گرہن کھل جائے۔
اِس حدیثِ رسول میں سورج گرہن اور چاند گرہن (solar eclipse & lunar eclipse) کو نشانی (signs) کہاگیا ہے۔ قدیم زمانے کے مخاطبین اپنے روایتی فریم ورک کے اعتبار سے اتنا ہی سمجھ سکتے تھے۔ لیکن موجودہ زمانے میں لوگوں کا فریم ورک سائنٹفک فریم ورک بن چکا ہے۔ اب آج کا انسان اِس قابل ہوگیا ہے کہ وہ خالص علمی معنوں میں اِس حقیقت کو سمجھ سکے۔ اور اِس طرح زیادہ گہرائی کے ساتھ وہ معرفت کا رزق حاصل کرے۔
موجودہ زمانے میں جدید فلکیات کے تحت مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ زمین اور سورج اور چاند تین انتہائی مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں۔ مگر وسیع خلا میں اُن کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک خاص پوزیشن کے تحت ایک سیدھ میں لایا جاتا ہے، اِسی خاص پوزیشننگ کے نتیجے میں سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:
Eclipse is a result of unimaginably well-calculated aligning of three different moving bodies in the vast sapce.