دانش مندی کی ضرورت
ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:الكلمة الحكمة ضالة المؤمن، فحيث وجدها فهو أحق بها (سنن الترمذی، حدیث نمبر2687)۔ یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے، وہ جہاں اس کو پائے اس کو لے لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت کی بات کوئی مذہبی عقیدے کی بات نہیں ۔ ہر انسان اس کو کہیں سے بھی لے سکتا ہے، اور اس کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ تعلیم بہت زیادہ اہم ہے۔ اس سے ری پلاننگ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے لیے ری پلاننگ کا وقت آئے تو وہ اپنے اور غیر میں کوئی فرق نہ کرے۔ وہ ہر حکمت کو خود اپنی چیز سمجھے۔ وہ ہر حکمت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے۔
ری پلاننگ کے اصول کو پیشگی طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا۔ ری پلاننگ ہمیشہ بدلے ہوئے حالات میں کی جاتی ہے، اور بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ فہم و بصیرت سے ہے۔ ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے حالات کا بے لاگ جائزہ لے۔ وہ فطرت کے اٹل اصولوں کی معنویت کو دوبارہ دریافت کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ وہ فطرت کے نظام میں کوئی خلل ڈالے بغیر اپنے مقصد کی تکمیل کرسکے۔
اس اصول کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہے۔ہجرت کے پانچویں سال جب کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں تھے، آپ کو معلوم ہوا کہ قریش کے لیڈر تمام عرب سےبارہ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ آپ نے اپنےاصحاب کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ لڑائی کے بغیر اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ آپ کے ساتھیوں میں ایک سلمان فارسی تھے، جو ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جب بادشاہ لوگ جنگ کو اوائڈ (avoid) کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔اس طرح فریقَین کے درمیان ایک بفر (buffer) قائم ہوجاتا ہے، اور دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی۔ پیغمبر اسلام نے اس کو پسند کیا، اور رات دن کی کوشش سے مدینہ کے ایک طرف جو کھلا ہوا تھا، لمبی خندق کھود دی گئي۔اس طرح فریقین کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے فریقین کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کی نوبت آجاتی تھی۔ جنگ کو ٹالنے کا یہ طریقہ جو اس وقت اختیار کیا گیا، وہ اس بات کی مثال تھی کہ دوسرے کے طریقے کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ خود اپنے مقرر کیے ہوئے طریقے پر عمل کرنا۔ کامیابی حاصل کرنےکے لیے دونوں طریقے یکساں طور پراہم ہیں۔
اس سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جس کا اشارہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (61:14)۔ یعنی اے ایمان والو، تم اللہ کے مددگار بنو۔ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں (مسیحیوں ) نے جو طریقہ اختیار کیا، اس طریقے میں اللہ کی مدد آتی ہے، اور اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مسیحی لوگوں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے پرنٹنگ پریس کے زمانے کو پہچانا، اور بائبل کا ترجمہ مختلف زبانوں میں تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا۔
صحابہ کے دور میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ صحابہ قرآن کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسیحی پیٹرن (pattern) پر قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائیں،اور ان کو چھاپ کر ساری دنیا میں پہنچادیا جائے۔ گویا کہ اصحاب رسول مقری آف قرآن بنے تھے، اب ہمیں ڈسٹری بیوٹر آف قرآن بننا ہے— یہ اشاعتِ قرآن کے معاملے میں ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔