نوآبادیاتی نظام

مغربی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ سولہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف اول تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نوآبادیاتی نظام پہلے زمانے کی شہنشاہیت سے مختلف تھا۔ اصل یہ ہے کہ جدید صنعت کے ظہور کے بعد یورپ میں  ماس پروڈکشن (mass production) کا زمانہ آیا۔ اب ضرورت ہوئی کہ اس فاضل پیداوار کے لیے بیرونی مارکیٹ حاصل کی جائے۔ اس طرح فاضل پیداوار کی کھپت کے لیے نوآبادیاتی نظام کا دور شروع ہوا۔ نوآبادیاتی نظام میں  فوج کشی قدیم رواج کے زیر اثر آئی۔ ورنہ نوآبادیات کا فوج کشی سے براہ راست تعلق نہ تھا۔

نو آبادیاتی نظام کو فوج سے وابستہ کرنے کی بنا پر ایشیا اور افریقہ میں نو آبادیات كے زیر حکم ریاستوں میں  اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز میں  یہ ظاہر ہوگیا کہ نوآبادیات اور سیاسی اقتدار دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب مغرب میں  نئی سوچ پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیات کو سیاسی اقتدار سے ڈی لنک (de-link) کردیا جائے۔ چنانچہ فرانس نے ڈیگال کے زمانے میں  افریقہ میں  اپنی نوآبادیات کا یک طرفہ طور پر خاتمہ کردیا۔ اسی طرح برطانیہ نے ایشیا میں  اپنی نوآبادیاتی حکومتوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔

اس کے بعد مغربی قوموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ری پلاننگ کی۔ اس نئی پلاننگ کا طریقہ آؤٹ سورسنگ پر مبنی تھا۔یعنی آؤٹ سائڈ ریسورسنگ (outside resourcing) کا طریقہ۔ قدیم نوآبادیاتی نظام میں  جو مقصد فوج سے لیا گیا تھا۔ اب وہ مقصد ٹکنالوجی اور تنظیم (organization) سے لیا جانے لگا۔ یہ طریقہ بہت کامیاب رہا۔ قدیم زمانے میں  فوج کے ذریعہ جو تجارتی مقاصد حاصل کیے جاتے تھے، اب اس کی جگہ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ اس سے بہت زیادہ تجارتی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں۔ اب تمام صنعتی ممالک اسی اصول پر اپنی تجارتوں کو ساری دنیا میں  پھیلائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا میں  اپنا بزنس ایمپائر (business empire) قائم کر رکھا ہے۔

  اس معاملے میں  مسلم قومیں  آخری حد تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ قدیم زمانے میں  دنیا کے مختلف علاقوں میں  مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔ نیا دور آیا تو ان کی حکومتیں فطری طور پرختم ہوگئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں میں  رد عمل (reaction) پیدا ہوا۔ انھوں نے جہاد کے نام پر ساری دنیا میں  لڑائی شروع کردی۔ یہاں تک کہ وہ سوسائڈ بمبنگ کی انتہائی حد تک پہنچ گئے۔ لیکن تقریباً دوسو سال کی قربانیوں کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، وہ قدیم سیاسی نظام کو واپس لانے میں  کامیاب نہیں ہوئے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس معاملے میں  اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔

یہ ری پلاننگ پوری طرح نان پولٹکل (non-political) ری پلاننگ ہوگی۔ قدیم زمانے میں  اگر مسلمانوں نے اپنی حکومتیں قائم کی تھیں تو اب انھیں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ موقع حاصل ہے کہ وہ پر امن دائرے میں  اپنا ایک غیر سیاسی ایمپائر قائم کرسکیں۔ موجودہ زمانے میں  جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ قدیم زمانے کے مواقع کے مقابلے میں  ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔ ان جدید مواقع کو استعمال کرنا انتہائی حد تک ممکن ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد (violence) کے ہر طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں۔

قدیم زمانے میں  جو اہمیت فوجی طاقت کو حاصل ہوتی تھی، وہ اہمیت اب تنظیم کو حاصل ہوچکی ہے۔اب مسلمانوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی تنظیم کے ذریعے اپنے کام کی ری پلاننگ کریں۔ وہ ایک امن پسند قوم کی طرح نئے مواقع کے حصول کی منصوبہ بندی کریں۔ اس نئی منصوبہ بندی میں  ان کا ایک بڑا آئٹم قرآن کو عالمی سطح پر پھیلانا ہوگا۔ قرآن کے تراجم اگر دنیا کی تمام زبانوں میں  تیار کیے جائیں، اور ان کو پر امن انداز میں  ساری دنیا میں  پھیلایا جائے تو یہ اپنے آپ میں  اتنا بڑا کام ہوگا جو تمام بڑے کاموں کے مقابلے میں  زیادہ بڑا کام بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتح مبین (الفتح، 48:1) کے واقعہ کو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان ری پلاننگ کے آرٹ کو جانیں، اور اس کو دانش مندی کے ساتھ پر امن انداز میں  رو بہ عمل لائیں۔ 

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom