خلافت، ملوکیت
ارسطو (Aristotle) اپنے زمانے کے یونانی بادشاہ (Alexander the Great) کا استاد (tutor) تھا۔ ارسطو کا نظریہ تھا یونان میں آئڈیل حکومت قائم کرنا۔ اس کے لیے اس نے نوجوان الیگزنڈر کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب الیگزینڈر یونان کا بادشاہ بنا تو وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح صرف ایک اقتدار پسند بادشاہ بن گیا۔ ارسطو کا معیاری حکومت کا خواب واقعہ کی صورت اختیار نہ کر سکا۔
یہی تمام دنیا کے مفکرین اور مصلحین کا انجام ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام سوچنے والے ذہن اسی آئڈیلزم (idealism)کےمسحور کن تخیل (obsession) میں پڑے رہے۔ ہر ایک کا نشانہ صرف ایک تھا۔ وہ ہے دنیا میں آئڈیل نظام قائم کرنا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص اپنے آئڈیل نشانے کو پورا نہ کر سکا۔ ہر ایک کا وہی حال ہوا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو کا ہوا تھا۔
اس کا سبب کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پولیٹکل آئڈیلزم (political idealism) فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا کے لیے صحیح سیاسی نظریہ پولیٹکل آئڈیلزم نہیں ہے، بلکہ پولیٹکل پریگمٹزم (pragmatism) ہے۔ آئڈیل سیاست کا حصول اس دنیا میںسرے سے ممکن ہی نہیں۔
آئڈیل نظام کے لیے خالق نے جنت کی دنیا بنائی ہے۔ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے آئڈیل اور پرفکٹ ہوگی۔ مگر خالق نے موجودہ دنیا کو آزمائش گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ یہاں ہر عورت اور هر مرد کو اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے آزمائشی حالات میں رہ کر مثبت رسپانس (positive response) دے۔ تاکہ وہ جنت کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔ اور پھر جنت کی ابدی دنیا میں داخلہ کے لیے اس کا انتخاب کیا جائے۔ اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کی بنا پر ہمیشہ یہی ہوگا کہ اس دنیا میں قائم ہونے والا سیاسی نظام انسان کی آزادی کے تابع ہو، اور اس بنا پر یہاں کبھی معیاری نظام نہ بن سکے۔
یہی اصول خود مسلم معاشرہ پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے میں افراد تو معیاری ہوسکتے ہیں۔ مگر عملی نظام مجموعی معنی میں کبھی معیاری نہیں ہوگا۔ایک فرد خود اپنی ذاتی سوچ کے تابع ہوتاہے۔اس لیے وہ اپنی ذات کی حد تک اپنے آپ کو جیسا چاہے ،ویسا بنا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی نظام ہمیشہ اجتماعی حالات کے تابع ہوتاہے۔ انسان اپنی آزادی کا کبھی درست استعمال کرتا ہے، اور کبھی غلط استعمال۔ اس بنا پر اس دنیامیں مجموعی اعتبار سےجو نظام بنے گا ، وہ بیک وقت دونوں قسم کے اجزاء پر مشتمل ہوگا، کچھ درست اور کچھ نادرست۔یہ فرق کسی نقص کی بنا پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ عین مطلوب ہوگا۔ کیوں کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کے مطابق ہوگا۔
کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام میں خلافت کا مطلب معیاری سیاسی نظام ہے۔ اس بنا پر وہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان معیاری سیاسی نظام بنانے کی تحریکیں چلاتے ہیں ۔ مگر اس قسم کی کوشش سے مطلوب نظام تو قائم نہیں ہوا، البتہ مسلمانوں کے اندر باہمی ٹکراؤ کی غیر مطلوب حالت قائم ہوگئی۔ ایسے مسلم قائدین نے صرف پولیٹکل اپوزیشن کی مثالیں قائم کی ہیں، ان کی کوششوں کا کبھی کوئی مثبت انجام بر آمد نہیں ہوا ۔ خلافت کی اصطلاح اسلام میں افرادِ انسانی کی آزادی کو بتاتی ہے، نہ کہ معیاری سیاسی نظام کو ۔ قرآن کے مطابق انسان کو خلیفہ بمعنی آزاد مخلوق بنایا گیا ہے ، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان اپنی آزادی کا عملی استعمال کس طرح کرتا ہےلِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (10:14)۔ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔
قرآن میں اولوالعزم انبیاء کا حوالہ دیا گیا ہے(46:35)۔ لیکن کسی بھی نبی کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے زمانے میں معیاری خلافت کا نظام قائم کیا۔ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے بارے میں بھی قرآن کی کسی آیت میں یہ الفاظ نہیں آئے ہیں کہ تمھارا مشن یہ ہے کہ تم دنیا میں معیاری خلافت قائم کرو۔ پیغمبر اسلام کا مشن بھی دوسرے انبیاء (4:165)کی طرح انذار و تبشیر (25:56) تھا، نہ کہ معیاری معنوں میں کسی سیاسی نظام کا قیام۔پیغمبر اسلام کے بعد صحابہ کے زمانے میں جو سیاسی نظام قائم ہوا، اس میں بھی مسلم حاکم کو خلیفہ نہیں کہا گیا، بلکہ امیر المومنین کہا گیا۔
اس صورتِ حال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت کا نظام ملوکیت کے نظام میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے حالات کے مطابق، جو سیاسی نظام قابلِ عمل (workable) تھا، وہ قائم ہوا اور وقت کے مسلمانوں نے اس کو قبول کیا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر نظام میں اسلام کا مطلوب تعمیری سفر بدستور جاری رہا۔ حالات میں تغیر کے باوجود ، اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔