انسانِ اوّل کی مثال

خالق نے جب آدم (پہلے انسان) کو پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں  بسایا۔ مگر آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے۔ انھوں نے منع کرنے کے باوجود شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا پھل کھا لیا۔ اس کے بعد ان کو اور ان کی بیوی ، دونوں کو جنت سے نکلنا پڑا۔ پھر دونوں کے اندر توبہ (repentance) کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ خالق سے معافی کے طالب ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے لیے یہ مقدر کیا گیا کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں تو ان کو جنت میں  دوبارہ داخلہ (re-entry) ملے گا۔

اس کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ ابتدائی منصوبہ کے مطابق جنت تمام انسانوں کے لیےعمومی طور پر مقدر کی گئی تھی۔ لیکن جب آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اور انھوں نے وہ کام کیا جس سے انھیں منع کیا گیا تھا، تو خالق نے انسان کے بارے میں  دوسرا اصول مقرر کیا۔ یہ اصول انتخاب (selection) کی بنیاد پر تھا۔ یعنی پہلے اگر ہر مرد اور ہر عورت کے لیے جنت کا حصول ممکن تھا ، تو اب یہ اصول قرار پایا کہ جو عورت اور مرد امتحان (test) میں  پورے اتریں، ان کا انتخاب کرکے ان کو جنت میں  داخلہ دیا جائے۔ اس كے برعكس، جو لوگ امتحان میں  پورے نہ اتریں، وہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم قرار پائیں گے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک ابدی سبق تھا۔ اب انسان کے لیے کامیابی کا راستہ صرف یہ تھا کہ اگر اس کا پہلا منصوبہ کام (work) نہ کرے، تو وہ کسی غیر متعلق مشغولیت میں  اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ وہ صرف ایک کام کرے— حالات کا ازسر نو جائزہ لینا، اور اپنے عمل کو نئے منصوبہ کے تحت دوبارہ مرتب کرنا۔    

یہ واقعہ انسانی تاریخ کے آغاز میں  پیش آیا۔ اس طرح خالق نے انسان کو یہ سبق دیا کہ دنیا کے حالات میں  باربار ایسا ہوگا کہ تم کسی نہ کسی سبب سے پہلے موقع (1st chance) کو کھودو گے۔ اس وقت تمھیں منفی سوچ میں  مبتلا نہیں ہونا ہے، بلکہ حاصل شدہ تجربے کی روشنی میں  تم کو اپنے کام کی ری پلاننگ (re-planning) کرنا ہے۔ یہی تمھارے لیے اس دنیا میں  کامیابی کاراستہ ہے۔

انسان کو موجودہ دنیا میں  مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہاں انسان کے لیے حالات ہمیشہ موافق نہیں رہتے۔ اس دنیا میں  انسان کو ناموافق حالات میں  راستہ بناتے ہوئے اپنا سفر کرنا ہے۔ یہ اصول سب کےلیے ہے۔ خوا ہ وہ مذہبی ہو یا سیکولر، وہ طاقت ور ہو یا کمزور ۔ یہ حالات ہمیشہ ہر شخص، اور ہر گروہ کے لیے پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں  کسی کو ایسا نہیں کرنا ہے کہ وہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان پربا کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ اس دنیا میں  صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی جب یہ دیکھے کہ اس کا پہلا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا تو وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں  اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ خود اپنے حالات کا بے لاگ اندازہ کرتے ہوئے اپنے عمل کے لیے نیا منصوبہ بنائے۔

کامیاب ری پلاننگ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرے۔ وہ ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اس حقیقت کو مانے کہ اس کی ناکامی کا سبب خود اس کے اپنے اندر تھا۔ حالات کا وہ صحیح اندازہ نہ کرسکا۔ اس لیے اب صرف یہ کرنا ہے کہ وہ حالات کا دوبارہ صحیح اندازہ (re-assessment) کرے، اور اس کی روشنی میں  حقیقت پسندانہ انداز میں  اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔

زندگی کے لیے ری پلاننگ کا اصول ایک ابدی اصول ہے۔ وہ اول دن کے لیے بھی تھا، اور بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ جب تک انسان کو اس دنیا میں  آزادی حاصل ہے، اور جب تک اسباب اپنی جگہ قائم ہیں، ہر ايک کو اسی اصول پر اپنا کام کرنا ہوگا۔ جو لوگ اس اصول پر کام کریں، وہ اس دنیا میں  کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ اس اصول کی پیروی نہ کریں، وہ یقینی طور پر اس دنیا میں  کامیابی سے محروم رہیں گے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom