تخلیق کی منزل
تخلیق کی منزل (goal of creation) کیا ہے۔ یعنی پیدا کرنے والے نے کیوں موجودہ دنیا کو پیدا کیا۔ اس تخلیقی عمل کا مقصد کیا ہے، اور یہ تخلیقی سفر آخر کار کہاں تک پہنچنے والا ہے۔ قرآن اور انسانی تاریخ کے مطالعے سے اس کا جو جواب معلوم ہوتا ہے، اس کو یہاں درج کیا جارہا ہے۔
اس سوال کا جواب مختصر طور پر یہ ہے کہ تخلیق کا مرکزی کردار انسان ہے، اور تخلیق کی منزل جنت (Paradise) ہے۔جو کہ انسان کے لیے معیاری دنیا (ideal world) ہے۔آغاز سے اختتام تک یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور آخر کار وہ ابدی جنت تک پہنچتا ہے۔ آخری دور کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے :يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48)۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔ اس تبدل (change) کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو بدل کر وہ دنیا بنائی جائے گی، جس کو قرآن میں آخرت کی دنیا کہا گیا ہے۔
یہ دوسری دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ موجودہ دنیا میں صالح اور غیر صالح، دونوں ملی جلی حالت میں آباد ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہاں ہمیشہ وہ غیر مطلوب صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، جس کو منفی طور پر پرابلم آف ایول (problem of evil) کہا جاتا ہے۔اگلی دنیا میں دونوں قسم کے انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا۔اس کے بعد زمین ایک اور زمین کی صورت میں ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔
اس واقعہ کو زبور اور قرآن، دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (21:105) ۔ يعني اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ موجودہ زبور میں یہ حوالہ ان الفاظ میں موجود ہے: بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے— شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے :
For evildoers shall be cut off: but those that wait upon the Lord, they shall inherit the earth....the seed of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell therein forever. (Psalms, 37:9 & 28-29)
یہ وارثین ساری نسل انسانی کے صالح افراد ہوں گے، جن میں امت محمدی کے صالح افراد بھی شامل ہیں۔