دورِ تائید
قرآن میں ایک حکم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّه (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ معروف جنگ کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ انتہائی جد و جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہے۔ چوں کہ آپ کی زندگی میں عملا ًجو کچھ پیش آیا وہ یہی تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی کامل جنگ (full-fledged war) نہیں کی۔ آپ کے مخالف گروپ نے کئی بار آپ پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی۔ مگر آپ نے ہمیشہ یہ کیا کہ خصوصی تدبیر کے ذریعہ یا تو جنگ کو عملا ًہونے نہیں دیا، یا اس کو جنگ کے بجائے جھڑپ (skirmish) بنا دیا۔ اس معاملے میں آپ کی زندگی مذکورہ قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے۔
پيغمبر اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن آپ نے مکہ سے ہجرت کرکےقتل و قتال کو عملا ًناممکن بنا دیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پرآپ کے مخالفین نے بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا۔ مگر آپ نے اپنے اور فریق مخالف کے درمیان خندق کی صورت میں ایک حاجز (buffer) قائم کردیا۔ حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی نے جنگ کی صورت پیدا کردی، لیکن آپ نے یک طرفہ صلح کرکے جنگ کو ہونے سے روک دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ یقینی تھی، لیکن آپ نے خصوصی تدبیر کے ذریعہ اس کو پُر امن مارچ (peaceful march) میں بدل دیا، وغیرہ۔