ویٹیکن ماڈل
ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ رب العالمین اہل اسلام کے لیےدوسری قوموں کے ذریعہ تائید (support) فراہم کرےگا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔اس حدیث رسول کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی دوسری قوموں یا سیکولر لوگوں کے ذریعے ایسے ماڈل (model) سیٹ کرےگا، جو اہل اسلام کے لیے اپنے دینی مشن میں رہنما بن سکے ۔ غور کیا جائے تو تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو ویٹیکن ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
قدیم یورپ میں مسیحی پوپ کو پورے یورپ کے لیے بے تاج بادشاہ (uncrowned king) کا درجہ حاصل تھا۔ سترھویں صدی میں حالات بدلے، اور دھیرے دھیرے پوپ نے اپنا اقتدار کھودیا۔اب پوپ کے لیے دو آپشن (option)کے درمیان انتخاب کا معاملہ تھا۔ یا تو پولٹکل رول کی حیثیت سےپوپ کا عہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، یا کسی نان پولٹکل سطح پر پوپ کا ٹائٹل باقی رکھا جائے۔غور وفکر کے بعد مسیحی ذمہ دار ان دوسری حیثیت پر راضی ہوگئے۔یہ واقعہ مسولینی کے زمانے میں ہوا۔ 1929 میں مسیحی پوپ اور اٹلی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس کو لیٹرن ٹريٹي(Lateran Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق، اٹلی کی دارالسلطنت روم میں پوپ کو ایک محدود علاقہ دے دیا گیا، جس کا رقبہ تقریبا ایک سو دس ایکڑ تھا۔یہ علاقہ پہلے سے مسیحی لوگوں کے پاس تھا۔ اب اس کو ایک با اقتدار اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ پوپ نے اس علاقے کو ڈیولپ کیا، اور اب وہ مسیحیت کےلیے روحانی کنگڈم (spiritual kingdom) کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے۔
لیٹرن معاہدے کے ذریعہ مسیحی قوم کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پوپ ڈم (Popedom)کے خاتمے کے باوجود پوپ کا ٹائٹل بدستور باقی رکھیں۔ وہ پوپ کے نام سے بدستور ساری دنیا میں اپنی مذہبی تنظیم (religious organization) قائم کریں۔ وہ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت ساری دنیا میں منظم طور پر اپنے مذہب کا کام کرسکیں۔ یہ وہی حکمت تھی جس کو قرآن میں إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (9:52) کہا گیا ہے، یعنی دوبہتر میں سے ایک (one of the two bests) کا انتخاب کرنا ۔
موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محرومی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زمانی حقائق سے بے خبری کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بار بار یہ موقع ملا کہ وہ’’ویٹیکن ماڈل‘‘ کے مطابق اپنے لیے دوسرا بہتر (second best) حاصل کرلیں۔ لیکن مسلمانوں کے رہنما اپنی غیر دانشمندی کی بنا پر اس موقع کو اویل (avail) نہ کرسکے۔ مثلاً بیسویں صدی کے ربع اول میں جب یہ واضح ہو گیا کہ عثمانی خلافت کا سیاسی ادارہ باقی نہیں رہ سکتا۔ تو مسلم رہنماؤں کے لیے یہ موقع تھا کہ گفت و شنید کے ذریعہ وہ دوسرے بہتر (second best) پر راضی ہوجائیں ۔ یعنی خلافت کے نام سے ترکی کے کسی علاقہ ، مثلاً قسطنطنیہ کے ایک محدود رقبہ کو حاصل کرلیں، اور وہاں ویٹیکن جیسا ایک ادارہ بنا کر خلیفہ کے ٹائٹل کو بدستور باقی رکھیں۔یہ مسلم رہنماؤں کے لیے اپنے مسئلے کی ری پلاننگ کا ایک موقع تھا۔ مگر اس وقت کے مسلم رہنما اِس معاملے میں حقیقت شناسی کا ثبوت نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اسی طرح 1952 میں جب مصر کےشاہ فاروق کی حکومت ختم ہوئی، اور مصر میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ تو اس وقت الاخوان المسلمون کومصر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت میں وزارت تعلیم (Education Ministry) کی پیش کش کی، مگر الاخوان المسلمون کے رہنماؤں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے 1962 میں جماعت اسلامی پاکستان کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں ایک بین اقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے، اور اس کا مکمل چارج جماعت اسلامی پاکستان کو دے دیا جائے۔ مگر جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ داران نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ سب ری پلاننگ میں ناکامی کا معاملہ ہے، اور یہی ناکامی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل ذمہ دار ہے۔