ایک غلط فہمی
کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کی دنیا میں بہت سے دوسرے لوگ خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے مانے جانتے ہیں۔ مثلاً ہندو لوگ رام اور کرشن کو پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں۔ اِسی طرح مسیحی لوگ حضرت مسیح کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا خصوصی رہنما سمجھتے ہیں۔ مگر یہ صرف ایک غلط فہمی ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
جہاں تک رام اور کرشن کا تعلق ہے، اِس بحث کے ذیل میں اُن کو زیر غور لانا ممکن نہیں۔اِس کا سبب یہ ہے کہ رام اور کرشن ایک افسانوی شخصیت (mythological figure) کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو تاریخی شخصیت (historical figure) کا درجہ حاصل نہیں۔ انڈیا کے کسی بھی مستند تاریخی ریکارڈ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رام اور کرشن کوئی حقیقی شخصیت تھے۔ رام اور کرشن کا کوئی ریفرنس نہ انڈیا کی تاریخ میں پایا جاتا ہے، اور نہ عالمی تاریخ میں ۔
مثال کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہم خالص تاریخی ریکارڈ کی بنیاد پر یہ جانتے ہیں کہ وہ 570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 610 ء میں مکہ میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا اور اپنے مشن کا آغاز کیا۔ 622 ء میں آپ مکہ کوچھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں انھوں نے اسلام کی پہلی اسٹیٹ (city state)قائم کی۔ 632ء میں آپ کی وفات مدینہ میں ہوئی، اور وہیں پر آپ دفن کیے گئے۔ آپ کی قبر اب بھی مدینہ میں موجود ہے۔ اِس قسم کی تاریخی معلومات (historical data)نہ رام کے بارے میں دست یاب ہیں ،اور نہ کرشن کے بارے میں ۔
یہ حقیقت اتنی زیادہ واضح ہے کہ خود ہندو اسکالر اس کو مانتے ہیں۔ ہندو مصنفین نے اِس موضوع پر مقالات اور کتابوں کی صورت میں بہت زیادہ لکھا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
The JNU historians reject the Ramayana as a source of historiography: “The events of the story of Rama, originally told in the Rama-Katha which is no longer available to us, were rewritten in the form of a long epic poem, the Ramayana, by Valmiki. Since this is a poem and much of it could have been fictional, including characters and places, historians cannot accept the personalities, the events or the locations as historically authentic unless there is other supporting evidence from sources regarded as more reliable by historians. Very often historical evidence contradicts popular beliefs.” (Koenraad Elst: Ram Janmabhoomi Vs Babri Masjid, Voice of India, New Delhi, 1990 p. 14)