کشتیٔ نوح

ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اول کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جيسا كه معلوم هے، تقریباً   5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں  ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں  سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق) میسوپوٹامیا) سے چلی، اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔

اِس واقعے کا ذکر بائبل میں  اور قرآن میں  نيز مختلف تاریخی کتابوں میں  بشكلِ كهاني موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاںہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں  مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں  گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں  جگہ جگہ گلیشير پگھلنے لگے۔ چنانچہ ارارات پہاڑ کے گلیشير بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔

بیسویں صدی کے آخر میں  کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں  پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں  یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوں نے  کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ طوفانِ نوح آیا تھا:

A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand meters up a mountain in Turkey. The team say they recoverd wooden specimes from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)

قرآن میں  کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں  سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں  پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ (29:15)۔یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا، اور ہم نے اس کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا:

Then we saved him and those who were with him in the Ark, and made it a sign for mankind.

حضرت نوح کی کشتی تاریخ انبیا کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں  آئے اور اُن کے لیے دین ِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں  لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(ھود،11:44)یعنی ٹھہرنا ایک ایسے ملک میں  ہو جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں  ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں  آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں كو دينے كے ليے تیار کیے جاسکیں، دنیا کھلے پن (openness) کے دور ميں پہنچ چکی ہو، اِسي کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، تنگ نظری (narrow-mindedness) ، وغیرہ۔

ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشير کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے گا، جب کہ پوری کشتی ظاهر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبه یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشہ سیاحت (tourist map) میں  نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں  ٹوٹ پڑیں گے۔ اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں  رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام كو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب کہ ترکی میں  آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا، جس میں  پیشگی طور پر کشتی نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom