دابه كي تحقيق

دابه كے لفظي معني هيں رينگنے والا (creeper) ۔اپنے استعمال كے اعتبار سے، دابه كا لفظ حيوان كے ليے خاص نهيں هے، وه كسي بھي ايسي چيز كے ليے بولاجاتا هے جو رينگنے كي رفتار سے چلے۔ يه استعمال عربي زبان اور غير عربي زبان دونوں ميں پايا جاتا هے۔

مثلاً كها جاتا هے:دبّ الشراب في عروقه (مشروب كا اثر رگوں ميں سرايت كرگيا )۔ اسي طرح كها جاتا هے كه: دبّ الجدول (نهر ميں پاني كا جاري هونا)۔ اسي طرح كهاجاتا هے: دبّ السُّقم في الجسم (جسم ميں بيماري كا سرايت كرنا)۔اسي ليے ايك مخصوص آله ٔحرب كو ’دبّابة‘ كها جاتا هے۔

اِس مقصد كے ليے دبابه كا لفظ قديم زمانے سے رائج هے۔ قديم زمانے ميں دشمن كے قلعے تك پهنچنے كے ليے يه كرتے تھے كه معكوس يو (inverted U) كي شكل ميں ايك گاڑي بناتے تھے جس كے نيچے پهيه لگا هوتا تھا۔ فوجي اس كے اندر داخل هوجاتا اور پهيه كے ذريعے اس كو چلاتا هوا قلعے كي ديوار تك پهنچ جاتا اور پھر قلعے كي ديوار ميں نقب لگا كر اس كے اندر داخل هوجاتا ۔ اس آله ٔ   حرب كو دبابه كها جاتا تھا۔

دبابه كي يه قديم ٹيكنك آج كے مشيني دور ميں بھي رائج هے۔ اِسي اصول كے مطابق، موجوده زمانے ميں ٹينك (tank) بنائے گئے هيں۔ موجوده مشيني ٹينك كو بھي دبابه كهاجاتا هے، يعني وه حربي گاڑي جو پهيے پر چلتي هوئي دشمن كے قلعه تك پهنچ جائے۔

دبابه كي تشريح كے تحت يهي بات عربي لغات ميں آئي هے۔ مثلاً لسان العرب كے الفاظ يه هيں: الدّبابةُ:آلة تُتَّخذ من جلود وخشبة، يدخل فيها الرجال، ويقرّبونها من الحصن المحاصر لينقبوه، وتقيم ما يرمون به من فوقهم۔ وفي حديث عمر رضى الله عنه قال:كيف تصنعون بالحصون؟ قال:نتخذ دبّاباتٍ يدخل فيها الرجال۔(1/371)

رينگنے كا لفظ اپنے اِسي توسيعي مفهوم ميں هر زبان ميں استعمال هوتاهے۔ مثلاً گھنےكهر ميں ٹرين آهسته رفتار سے چلتي هے تو كها جاتا هے كه ٹرين رينگ رهي هے۔ امريكا كے ناولسٹ جيمس بالڈون (James Baldwin) نے اپني ايك كهاني ميں كشتي كے بارے ميں يه الفاظ لكھے هيں— پراني كشتي پاني كے اوپر گھونگھے كي رفتار سے رينگ رهي هے:

The old boat creaps over the water no faster than a snail.

1۔  قرآن كي سوره النمل كي آيتِ دابه ميں ’تكلم‘ بمعني   ينطق نهيں هے، بلكه وه   يدلّ كے معني ميں هے، يعني دلالت كرنا،شهادت دينا۔ لفظ ’كلام‘ كے مادّه كا يه استعمال خود قرآن ميں دوسرے مقام پر موجود هے۔ مثلاً سوره الروم ميں ارشاد هوا هے: أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ(30:35) ۔ يعني كيا هم نے اُن پر كوئي سند اتاري هےكه وه اُن كو خدا كے ساتھ شرك كرنے كو كهه رهي هے۔

جس طرح سوره الروم كي اِس آيت ميں كلام بزبانِ حال كے معني ميں آيا هے، اِسي طرح سوره النمل كي مذكوره آيت ميں كلام كا ماده كلامِ حال كے معني ميں آيا هے، يعني دونوں هي آيتوں ميں كلام كا ماده زبانِ حال كے  مفهوم ميں استعمال هوا هے، نه كه زبانِ قال كے مفهو م ميں۔

آيت كا آخري ٹكڑا يه هے:

2۔   أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ — يهاں آيات (signs) سے كيا مراد هے۔ اِس كي وضاحت قرآن كي اِس آيت سے هوتي هے:قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ(11:48)۔

 اِس آيت ميں ’’مسِّ عذاب‘‘كا ذكر هے۔ اسي كے ساتھ يهاں ايك اور چيز محذوف هے، وه يه كه كچھ افراد بچاليے جائيں گے جس طرح كشتي نوح كے افراد بچا ليےگئے اور دوسرے لوگ جو عذاب كے مستحق تھے، وه هلاك كرديے گئے— سفينه كا لفظ حضرت نوح كي كشتي كو بتاتا هے ،اور دابه كا لفظ اُس كشتي كے رول كو۔

قرآن )  27: 82)کی آیتِ دابّہ کے حسب ذيل تین حصے ہیں:

1۔  وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ  (اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی )۔

2۔  أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ  ( ہم ان کے لیے زمین سے ایک دابّہ نکالیں گے)۔

3۔  تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماري نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے) ۔

آیت کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کے فیصلے سے ہے، یعنی دابہ کا خروج اُس وقت ہوگا، جب کہ اللہ تعالي موجودہ دنیا میں انسانی تاریخ کے خاتمے کا فیصلہ فرما دے۔ آیت کے دوسرے حصے کا تعلق قدرتی حالات سے ہے، یعنی فطری اسباب کے تحت ایسے حالات کا پیداہونا جب کہ دابہ (کشتی نوح) کا برفاني کور (cover)ہٹ جائے، اور وہ پورے طورپر لوگوں کے سامنے آجائے۔

آیت کے تیسرے حصے کا تعلق انسان سے ہے، یعنی جب ایسا ہوگا تو یہ انسان کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اِس واقعے کو لے کر اس کی تاریخ لوگوں کے سامنے بیان کرے، اِس واقعے میں سبق کا جو پہلو ہے، اس سے لوگوں کو باخبر کرے۔آیت کا تیسرا حصہ جو انسان سے متعلق ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کو ماننے والے اس وقت اٹھیں اور قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچائیں، کیوں کہ دابہ (کشتی نوح) کا ظہور قرآن کی پیشین گوئی کی تصدیق ہوگی۔

یہ واقعہ لوگوں کے لیے اِس بات کی دعوت ہوگا کہ وہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھ کر پڑھیں، اور اس کے ذریعے اُس پیغام کو جو اللہ کی طرف سے پیغمبر وں کے ذریعہ بھیجا گیا تھا،اُس كو ايك ثابت شده صداقت كي حيثيت سے قبول كرليں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom