پيغمبر كا مشن

پیغمبر کا مشن کیا ہے، اس کو قرآن میں  انذار وتبشیر(البقرۃ، 2:213)کے الفاظ میں  بیان کیاگیا ہے، یعنی خدا کے تخلیقی منصوبے(creation plan of God) سے دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں کو باخبر کرنا، تاکہ آخرت میں  جب تمام لوگ حشر کے میدان میں  حاضر ہوں تو خدا کے سامنے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم کو اِس تخلیقی منصوبے کی خبر نہ تھی۔ پیغمبرانہ مشن کی اِس حقیقت کو قرآن میں  اِن الفاظ میں  بیان کیاگیا ہے: رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ4:165) )یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور آگاه كرنے والابناکر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں  کوئی حجت باقی نہ رہے:

They were messengers, bearing good news and giving warning, so that mankind would have no excuse before God.

جغرافی اعتبار سے ترکی کا جائے وقوع بہت عجیب ہے۔ اس کا نصف حصہ ایشیا میں  ہے اور بقیہ نصف حصہ یورپ میں ۔ اِس طرح ترکی گویا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے:

Turkey is like a geographical bridge between East and West.

ترکی کی یہ جغرافی حیثیت بظاہر خدا کے تخلیقی منصوبہ کا ایک خاموش اعلان ہے۔ ترکی کے بارے میں خدا کو یہ منظور هے کہ وہ حکمتِ نبوت (prophetic wisdom) کو مشرق سے لے اور اس کو مغربی اقوام تک پہنچائے۔

قدیم زمانے میں  ترکی دو بڑے ایمپائر کی سیٹ رہا ہے — بازنطيني ایمپائر(Byzantine Empire) اور عثمانی ایمپائر (Ottoman Empire)۔اِس خصوصی تاریخ کی بنا پر ترکی میں  بہت زیادہ تاریخی یادگاریں ہیں،جو سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ زمانے میں  سفر اور کمیوني کیشن کی بنا پر ایک نیا ظاہرہ وجود میں  آیا ہے جس کو عالمی سیاحت (international tourism) کہاجاتاہے۔ترکی اِس اعتبار سے چند ٹاپ کے سیاحتی ملکوں میں  شمار ہوتاہے۔ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں  مسلسل آتے ہیں۔ سال 2011 میں  ترکی میں  دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاحوںکی تعداد 31 ملین سے زیادہ تھی۔ ترکی میں  آنے والے یہ لوگ سیکولر اصطلاح کے مطابق، سیاح (tourist)ہیں، لیکن اسلامی اصطلاح کے مطابق، وہ مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن میں  سے ہر عورت اور هر مرد اِس کا ضرورت مند ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں  پہنچایا جائے۔

اِن سیاحوں کے بارے میں  یہ کہنا درست ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر آکر دستک دے رہا ہے۔ وہ ترکی کے مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس پیغمبر کا لایا ہوا خدائی کلام (Word of God) ہے۔ ہم تمھارے دروازے پر موجود ہیں۔ لاؤ وہ کلام ہم کو عطا کرو:

We are here. Give us the Word of God you have received from the Prophet of Islam.

اکیسویں صدی عیسوی میں  پیدا ہونے والی یہ صورتِ حال، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، زیادہ بڑے پیمانے پر عین وہی ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں  نسبتاً محدود پیمانے پر وجود میں  آئی تھی۔ اِس صورت ِ حال کی حیثیت ایک دعوتی امکان (dawah opportunity) کی ہے۔ امتِ مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ اِس امکان کو دعوت الی اللہ کے لیے اُسی طرح استعمال کرے، جس طرح ساتویں صدی میں  پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اس کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا تھا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں  مکہ میں  اپنا مشن شروع کیا۔ اُس وقت مکہ مشرکانہ کلچر کا مرکز بناہوا تھا، حتیٰ کہ خود مقدس کعبہ میں  بھی کئی سو بت رکھے ہوئے تھے۔ اِس مشرکانہ کلچر کی بنا پر ایسا تھا کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ برابر مکہ آتے تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں  یہ کہنا صحیح ہوگاکہ مکہ کے مشرکانہ مرکز ہونے کی بنا پر عرب میں  ایک قسم کی مذہبی سیاحت (religious tourism) وجود میں  آگئی تھی۔ مکہ اِن ’’مذہبی سیاحوں‘‘ کا مقامِ اجتماع بنا ہوا تھا۔

یہ اجتماعات اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے، مشرکانہ اجتماعات تھے، لیکن اِسی کے ساتھ يه لوگ پیغمبر اسلام کے داعیانہ مشن کے لیے سامعین (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔ قديم مكه ميں پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر روزانہ ان کے اجتماعات میں  جاتے اور قرآن سنا کر اُن کو دین ِ حق کا پیغام پہنچاتے۔ اِس لیے اصحابِ رسول کو ’’مقری‘‘ کہاجانے لگا، یعنی قرآن پڑھ کر سنانے والا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ مکہ میں  رہتے ہوئے تمام عرب قبائل تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا خدائی پیغام پہنچ جائے۔

یہ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے کی بات ہے ۔ اُس وقت صرف یہ ممکن تھاکہ خدا کے کلام (قرآن( کو اپنے حافظے میں  محفوظ کرلیا جائے اور اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جائے۔ مگر اب دنیا میں  پرنٹنگ پریس کا دور آچکا ہے، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن یا اس کا ترجمہ کتابی شکل میں  تیار کرلیا جائے، اور اس کو مطبوعه صورت ميں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ گویا ساتویں صدی کے داعی اگر قرآن کے مقری بن کر دعوت کا کام انجام دے رہے تھے تو اکیسویں صدي کے داعی کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor)  بن کر اِسی پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھنا ہے۔ کسی گروہ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اس کو دنیا میں  نظریاتی قائد کا درجہ حاصل ہو۔ دعوت الی اللہ كا كام ہی وه کام ہے، جو امتِ مسلمہ کو موجودہ زمانے میں  نظریاتی قیادت کا درجہ عطا کرسکتاہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ کا مشن ہے۔ اِس مشن کے مستقبل کے بارے میں  ایک پیشین گوئی حدیث میں  اِن الفاظ میں  آئی ہے: لا یبقیٰ علی ظھر الأرض بیتُ مدر ولاوبر إلَّا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسنداحمد، حديث نمبر24215) ۔یعنی زمین کے اوپر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔

اِس حدیثِ رسول میں  یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں  بسنے والے ہر عورت اور مرد تک پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادخالِ کلمہ کا یہ واقعہ اسباب کے بغیر کسی پراسرار انداز میں  پیش آئے گا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں  ہر واقعہ اسباب وعلل کے تحت پیش آتا ہے۔ یہی صورت ادخالِ کلمہ کے مذکورہ معاملے میں  پیش آئے گی۔ ادخالِ کلمہ کا یہ معاملہ بلا شبہ ایک معلوم مُدخِل (داخل کرنے والے) کے ذریعے ہوگا، نہ کہ کسی پُراسرار طریقے کے ذریعے۔

اِس حدیثِ رسول میں  دراصل پیشین گوئی کے انداز میں  اُس دور کا ذکر ہے جس کو کمیوني کیشن کا دور (age of communication) کہاجاتاہے۔اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کی تاریخ میں  اہلِ ایمان کو عالمی کمیوني کیشن کے ذرائع حاصل ہوجائیں گے، اور اِس طرح اُن کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اِن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچا سکیں، جب کہ اِس سے پہلے صرف مقامی سطح پر پیغام رسانی ممکن ہوتی تھی—   يهي وه چيز هے جس كو هم نے  دعوه ايمپائر كا نام ديا هے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom