قرآن کی رہنمائی
قرآن میں انسانی تاریخ کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ۔ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ (57:22-23)۔ یعنی کوئی مصیبت نہ زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں، بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو تاریخی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، وہ فطرت کے قوانین کے بنا پر ہوتی ہیں۔ اس کا سبب کسی کی دشمنی یا کسی کی سازش نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کسی قوم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا صحیح رسپانس یہ نہیں ہے کہ کھوئی ہوئی چیز پر غم کیا جائے۔ بلکہ اس کا صحیح رسپانس ہے ہونے والے واقعے کو فطرت کے خانے میں ڈالنا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کے اندر صحیح سوچ جاگے گی۔ وہ حقیقت واقعہ کا بے لاگ جائزہ لے گا۔ اس طرح وہ اس قابل بن جائے گا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کرے، اور کھوئی ہوئی چیز کو نئے عنوان سے از سر نو حاصل کرلے۔
پیغمبر اسلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ احد کی جنگ میں آپ کے ساتھیوں کو شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی غم میں نہیں پڑے، بلکہ انھوں نےسارے معاملے پر از سر نو سوچنا شروع کیا ۔ اس طرح ان کے اندر یہ سوچ ابھری کہ وہ جنگ کے میدان کو چھوڑ دیں۔ وہ یہ کریں کہ ہر قیمت پر فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے، اور پھر امن کے اصولوں پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔ حدیبیہ کا معاہدہ جو سن 6 ہجری میں پیش آیا، وہ گویا اسی قسم کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔ یہ اسٹراٹیجی کامیاب ہوئی، اور بہت کم مدت میں اہل اسلام کو مزید جنگ کیے بغیر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہی وقت دوبارہ اہل اسلام پر آگیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس احساس میں مبتلا ہیں کہ وہ فریق ثانی کے مقابلے میں شکست کھا چکے ہیں۔ اس احساس نے ان کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں خود کش بمباری جیسے واقعات اسی قسم کی مایوسی کے تحت پیدا شدہ فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوںکو یہ موقع ہے کہ وہ حدیبیہ کی تاریخ کو دوبارہ نئے عنوان کے ساتھ دہرائیں، اور دوبارہ فتح مبین (الفتح، 48:1) کی تاریخ کو دہرائیں۔ یہ دوسری فتح مبین بلاشبہ ممکن ہے، لیکن سیاسی معنی میں نہیں ، بلکہ غیر سیاسی معنی میں ۔موجودہ زمانے میں صلح حدیبیہ جیسے حالات زیادہ بڑے پیمانے پر وقوع میں آگیے ہیں۔ قدیم زمانے میں جو مواقع محدود طور پر دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے، اب وہ یونیورسل نارم (universal norm)بن چکے ہیں۔ اب وہ مواقع خود عالمی حالات کے ذریعہ پیداہوچکے ہیں۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے کہ گفت و شنید کے ذریعے کوئی حدیبیہ جیسا متعین معاہدہ کیا جائے۔ اب وہ تمام چیزیں مستقل طور پر عملاً حاصل ہوچکی ہیں، جو قدیم زمانے میں دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ محدود طور پر حاصل ہوئے تھے۔
معاہدۂ حدیبیہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اہل اسلام کو آزادانہ طور پر اپنا پرامن دعوتی مشن جاری کرنے کا موقع مل جائے۔ اب اقوام متحدہ (UNO) میں تمام قوموں کے مشترک معاہدہ کے تحت ہر قسم کی آزادی کا حق حاصل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد کو چھوڑ دیں، اور پر امن طریقہ کار کے ذریعہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
اب کسی قوم کو اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے زمانے میں جو کام سیاسی اقتدار کے ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے فوج کشی کرنی پڑتی تھی ، اب وہ کام کمیونی کیشن کے ذریعہ انجام دنیا ممکن ہوگیاہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے کسی بادشاہ کا تخت چھیننا پڑتا تھا، اب وہ سب کچھ یونیورسل نارم کے تحت پر امن طریقہ کار کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہو گیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے اپنا سیاسی رقبہ (political area) بڑھانا پڑتا تھا، اب ا س کو ایک کمپیو ٹرائزڈ آفس میں بیٹھ کر آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے، وغیرہ۔