انسانیت انتظار میں
20 نومبر 2016کو ہمارے ایک ساتھی دہلی ایرپورٹ پر اترے۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک جگہ کچھ ماڈرن قسم کےنوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھی کے بیگ میں انگریزی ترجمۂ قرآن موجود تھا۔ وہ ان کے قریب گئے، اور ایک نوجوان کو انگریزی ترجمہ ٔ قرآن یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ آپ کے لیے گفٹ ہے۔ نوجوان نے اس کو دیکھا کہ تو وہ خوشی کے ساتھ کہہ اٹھا: واؤ! (wow!)۔ دوسرے نوجوانوں کو جب معلوم ہوا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو بھی واؤ! (wow!) کہنے کا موقع دیجیے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم قرآن کو پڑھیں اور یہ جانیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
یہ واقعہ علامتی طور پر ایک نمائندہ واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے انسان ، مرد اور عورت دونوں اپنی فطرت کے زور پر اس تلاش میں ہیں کہ وہ جانیں کہ اس دنیا کا خالق کون ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہمارے لیے اس دنیا میں زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں ہمیں کیا پیغام دیا ہے۔ یہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ہر مرد اور ہر عورت کے دل کی آواز ہے۔یہ صورت حال کی ایک پکار ہے۔ یہ پکار ان تمام لوگوں کو مخاطب کررہی ہے، جو قرآن کے حامل ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو دنیا کی تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کریں، اور اس کو لوگوں تک پہنچائیں، تاکہ لوگ اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں پڑھ کر جان سکیں کہ قرآن میں ان کے لیے کیا پیغام ہے۔
ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ ترجمۂ قرآن کے چھپےہوئے نسخے رکھے، اور جب بھی کسی مرد یا عورت سے ملاقات ہو تو اس کو وہ ایک اسپریچول گفٹ کے طور پر پیش کرے۔ یہ حاملین قرآن کے لیے اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی ایک ایسی صورت ہے جو ہر ایک کے لیے پوری طرح قابل عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو تمام انسانوںتک پہنچانا، ہر مسلمان کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے بغیر وہ اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار نہیں پاسکتے۔