غلط تقابل

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو اگر کہا جائے کہ آج کل مسلمان بہت زیادہ انسانوں کے قتل عام میں  ملوث ہیں، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ عالمی جنگوں میں  بے شمار آدمی قتل کیے گئے، ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، وغیرہ۔ یہ کہہ کر گویا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل کا جواز دیتے ہیں۔ مولانا اس میں  مغالطہ کیا ہے، واضح کریں۔ (ایک قاری الرسالہ، دہلی)

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک غلط تقابل (wrong comparison)ہے۔ اس معاملے میں  دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ فرسٹ ولڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں  جو قومیں  شریک تھیں، انھوں نے جنگوں کے تجربے کےبعد كس راستے كو اختيار کیا۔ اس معاملے میں  ان کا آخری نمونہ قابل اعتبار ہے، نہ کہ درمیان کا نمونہ۔

 واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں  فرسٹ ورلڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں  شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں  انھوں نے صرف نقصان اٹھایا، جنگ کا طریقہ ان کے لیے پورے معنوں میں  کاؤنٹر پرڈیکٹو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں  امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنے افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں  لگ گئے۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں  مصروف ہوگئے، وغیرہ۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پرامن انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی تعمیر و ترقی میں  لگ جائیں۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔

 نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کا یا تو حوالہ نہ دیا جائے، یا اگر حوالہ دینا ہے تو اس کے مفید پہلو کا حوالہ دیا جائے، اور وہ یہ ہے کے جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔

دوسروں کی غلطیوں سے اپنے لیے جواز (justification) نکالنا سخت قسم کی بے دانشی ہے۔ اگر آپ اپنے مفروضہ دشمن کی گردن کاٹیں ، اور کہیں کہ فلاں لوگوں نے بھی لوگوں کی گردنیں کاٹی تھیں، تو یہ ایک سرکشی کی بات ہوگی۔ دوسروں کا تجربہ سبق لینے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو جائز ٹھہرانے کے لیے۔اس سلسلے میں صحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں  آیا ہے:السعيد من وُعِظَ بغيره (صحیح مسلم، حدیث نمبر2645)۔ یعنی بامراد وہ ہے ،جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔ دوسروں کی غلطيوں كو دهرانا نادانی ہے، اور دوسروں سے مفید نصیحت لینا، دانش مندی۔

اگر آپ ایک ملین ڈالر خرچ کرکے ایک بید کی چھڑی حاصل کریں تو یہ پانا نہیں ہوگا، وہ کھونے کی بدترین شکل ہوگی۔ کوئی بڑا اقدام صرف اس وقت بڑا ہے جب کہ وہ نتیجہ خیز بھی ہو۔ جو اقدام بظاہر بڑا ہو، مگر نتیجہ کے اعتبار سے چھوٹا ہو، وہ اقدام نہیں بلکہ خودکشی کی چھلانگ ہے۔ ا س سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (سفرنامہ، غیرملکی اسفار، صفحہ 177)

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom