اہل ایمان، اہل تائید
پیغمبر اسلام کو اللہ نے اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا (الاحزاب، 33:40)۔ نبی کی حیثیت سے آپ دنیا میں 23 سال رہے۔ آپ آخری نبی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر نبیوں کی فہرست ختم ہوگئی، لیکن آپ کی پیغمبرانہ رہنمائی قیامت تک جاری رہے گی۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایک ایسا عمل (process) جاری ہو، جو پوری تاریخ انسانی کے لیے رہنمائی کا کام کرتا رہے۔
پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی تبلیغ کے تحت آپ کے اصحاب کی جماعت (ٹیم) بنی۔ پھر یہ مقدر کردیا گیا کہ اصحاب رسول کے بعد متبعین رسول ہر دور میں پیدا ہوں، اور وہ پیغمبر کی رہنمائی کو ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں جاری رکھیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اہل ایمان کہا جاتا ہے۔
یہ کام بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ اہل ایمان شاید اس کام کو تنہا انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان کے ساتھ اہل تائید کا گروہ کھڑا کردیا۔ یہ گروہ ہر دور میں اپنا تائیدی رول ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن بعد کے زمانہ میں تائید کا یہ کام بہت زیادہ بڑا بننے والا تھا۔ تائید کا یہ کام درحقیقت اہل ایمان کو مادی بنیاد فراہم کرنے کے ہم معنی تھا۔ اہل ایمان شاید اپنی آخرت پسندی کی بنا پر اس مادی بنیاد کو بطور خود بنانے کے قابل نہ تھے۔ اس لیے بعد کے دور میں تائید کے اس کام کے لیے زیادہ بڑے درجے کا اہتمام کیا گیا۔ اہل ایمان کے لیے دوسروں کی طرف سے یہی تائید کا معاملہ تھا، جس کو پیغمبر نے پیشگی طور پر بتا دیا تھا۔ پیشین گوئی کی یہ روایات حدیث کی اکثر کتابوں میں مستند طور پر موجود ہیں۔
اہل ایمان کے لیے دوسروں کی تائید کا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے اللہ نے پوری تاریخ کو مینج (manage) کیا۔ 12 ویں اور 13 ویں صدی میں جو صلیبی جنگیں ہوئیں، ان میں مسلم سلطنتیں اور مسیحی سلطنتیں بہت بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ اس ٹکراؤ میں مسیحی قوموں کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ ان کے لیے جنگ کا آپشن ہی ختم ہوگیا۔ اس طرح حالات کے دباؤ نے یورپ کی مسیحی قوموں کو جنگ کے میدان سےہٹاکر سائنسی تحقیق کے میدان کی طرف موڑ دیا ۔ اس طرح اہل مغرب کے درمیان فطرت (nature) کی دریافت کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ کئی سو سال تک برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اہل مغرب نے فطرت کے قوانین (laws of nature) کے ذریعہ اس جنگ کو امن کے میدان میں دوبارہ جیت لیا، جو اس سے پہلے وہ مسلح جنگ کے میدان میں ہار چکے تھے۔
قوانین فطرت کی دریافت کے میدان میں اہل مغرب کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار ترقی کا نیا دور پیدا کردیا، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔اپنی ان کامیابیوں کے ذریعہ اہل مغرب فطری طور پرپوری دنیا کے قائد (leader) بن گئے۔ سیاسی معنوں میں نہیں، بلکہ غیر سیاسی معنوں میں ۔ اہل مغرب کی ترقی مذہبی ترقی نہیں تھی، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیکولر ترقی تھی۔ اس ترقی میں فطری طور پر ہر قوم کو حصہ ملا، اور اہل ایمان کو بھی۔ اس طرح ایسا ہوا کہ اہل ایمان کو کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر اہل مغرب کی سیکولر تائید (secular support) مل گئی۔ اس طرح اہل ایمان اس قابل ہوگئے کہ وہ دور جدید میں پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو دوبارہ غیر سیاسی طور پر قائم کرسکیں، جس کو وہ پچھلی تاریخ میں سیاسی طور پر قائم کیے ہوئے تھے۔
اہل مغرب کی یہ سیکولر تہذیب بھی تاریخ کا وہ انقلابی واقعہ ہے، جس کو حدیث میں غیر اقوام کے ذریعہ اہل اسلام کی تائید (support) قرار دیا گیا ہے(المعجم الکبیر، حدیث نمبر 4640)۔ اہل مغرب نے پیغمبر اسلام کے دین کی تائید میں جو کارنامے انجام دیے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ مثلاً اہل مغرب کے ذریعہ لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اہل اسلام کو عالمی مواصلات (global communication) کا عظیم تحفہ ملا۔
اہل مغرب نے ہوائی جہاز رانی (aviation) کا عالمی نظام قائم کرکے اسلامی دعوت کو ایک نئے دور میں پہنچادیا۔ اہل مغرب نے عرب دنیا کے نیچے موجود پٹرول کو دریافت کیا، اور پھر اس کو کمرشیلائز کرکے اہل اسلام کو ایک نئی طاقتور معاشی بنیاد فراہم کردی۔ اہل مغرب نے پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ کے تجربات کے بعد اقوام متحدہ (UNO) قائم کیا، جس کے ذریعہ پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی امن کے تصور نے یونیورسل نارم (universal norm) کی حیثیت اختیار کرلی۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بارجمہوریت (democracy) کا نظام قائم کیا، جس نے تاریخ میں پہلی بار پولٹیکل پاور اور مواقع (opportunities) کو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اب پولیٹکل رولر کے پاس صرف ایڈمنسٹریشن کا شعبہ رہ گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام شعبے ہر انسان کے لیے آزادانہ طور پر کھل گئے۔ اس طرح اہل اسلام کو موقع مل گیا کہ وہ بلاروک ٹوک دینِ خداوندی کی اشاعت کی عالمی منصوبہ بندی کرسکیں۔ وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ اپنا نان پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کرسکیں۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بار پرنٹنگ پریس کا پورا نظام قائم کیا، جو اسلامی مشن کے لیے عین مطلوب حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ قرآن کے لیے سارے عالم کے لیے نذیر ہے(25:1)۔ مگر اس نشانہ کو قابل حصول نشانہ اہل مغرب نے اپنی تہذیب (civilization) کے ذریعہ بنایا۔ قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے اظہار کو تبیین حق کا سب سے بڑا واقعہ بتایا گیا تھا ( 41:53)۔ یہ کام بھی اہل مغرب کی دریافت کردہ تہذیب کے ذریعہ قابل عمل بنا، وغیرہ۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے : الحكمة ضالة المؤمن، حيثما وجد المؤمن ضالته فليجمعها إليه (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 146)۔ یعنی حکمت مومن کا متاع گم شدہ ہے، مومن جہاں اپني گم شدہ متاع کو پائے تو چاہیے کہ وہ اس کو اپنے پاس لے لے۔ پیغمبر کے بیان کردہ اس اصول کا اطلاق (application) اہل یورپ کی پیدا کردہ ماڈرن تہذیب پر بھی یقینی طور پر ہوتا ہے— مؤیدین کے گروہ نے اپنا کام انجام دے دیا ہے۔ اب اہل اسلام كو یہ کرنا ہے کہ وہ اس کام کو بطور مواقع (opportunities) دریافت کریں، اور ان کو پیغمبر کے دین کی حمایت میں استعمال کریں۔ یہ واقعہ اتنا بڑا ہے کہ اہل اسلام کو اس میں حقیقی دریافت ہوجائے، تو ان کے تمام منفی خیالات (negative thought)مکمل طور پر ختم ہوجائیں، اور وہ کامل مثبت ذہن کے ساتھ جدید مواقع کو استعمال کرنے کی طرف دوڑ پڑیں۔