رسول کی بعثت کا مقصد

ایک روایت کے مطابق، دنیا میں  ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ167)۔ اِن تمام پیغمبروں کا مقصد صرف ایک تھا— انسان کو خدا کے تخلیقی پلان(creation plan of God)  سے آگاہ کرنا۔ تمام پیغمبروں نے مشترک طورپر یہی ایک کام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ خدا نے کیوں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اِس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات (pre-death period) میں  انسان سے کیا مطلوب ہے، اور موت کے بعد کے دورِ حیات(post-death period) میں  اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اِسی کو قرآن میں  اِنذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ یہی انذار اور تبشیر تمام پیغمبروں کا مشترک مشن تھا (6:48)۔ اِس کے سوا کوئی چیز اگر کسی پیغمبر کی زندگی میں  نظر آتی ہے، تو وہ اس کی زندگی کا ایک اضافی پہلو (relative part)  ہے، نہ کہ حقیقی پہلو(real part)۔

موجودہ دنیا میں  انسان کی دو ضرورتیں ہیں۔ ایک ہے اس کی مادّی ضرورت، جس کی تکمیل فزیکل سائنس (physical science) کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ اُس کے پاس وہ خدائی ہدایت(divine guidance) موجود ہو، جس کی اتباع کرکے وہ آخرت میں  کامیاب زندگی حاصل کرے۔ اِس دوسری ضرورت کی تکمیل پیغمبرانہ الہام سے ہوتی ہے۔ تقریبِ فہم کے لیے اس کو ہم ریلجس سائنس (religious science) کہہ سکتے ہیں۔

فزیکل سائنس میں  آخری سائنٹسٹ (final scientist) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant)  لفظ ہے۔ فزیکل سائنس میں  مسلسل طورپر ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اِس لیے اِس میدان میں  کوئی سائنٹسٹ آخری سائنٹسٹ نہیں ہوسکتا۔ اِس کے برعکس، ریلجس سائنس ایک ہی خدائی ہدایت (divine guidance) پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ خدائی ہدایت غیر متغیر طورپر ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ اِس لیے ریلجس سائنس میں  یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ کوئی آخری پیغمبر (final prophet) ہو،جو انسان کو خداکا آخری کلام(final word)   دے دے، اور انسانیت کا قافلہ اس کی رہ نمائی میں  بھٹکے بغیر مسلسل طورپر اپنے سفرِ حیات کو جاری رکھے۔

خدا کی طرف سے آنے والا ہر پیغمبر ایک ہی ابدی ہدایت لے کر لوگوں کے پاس آیا۔ لیکن بشری تقاضے کے تحت جب پیغمبر کی وفات ہوئی، تو اس کے بعد اس کی لائی ہوئی خدائی ہدایت محفوظ نہ رہ سکی۔ اِس لیے بار بار یہ ضرورت پیش آئی کہ نیا پیغمبر آئے، او روہ انسان کو دوبارہ مستند ہدایت عطا کرے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی لائی ہوئی خدائی ہدایت، قرآن اور سنت کی شکل میں  کامل طورپر محفوظ ہوگئی، اِس لیے آپ کے بعد کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔

پیغمبر کا آنا ایک بے حد سنگین معاملہ ہوتا ہے۔ جب ایک زندہ پیغمبر موجود ہو تو اُس وقت انسان کے لیے ایک ہی انتخاب (option)  باقی رہتاہے، یہ کہ وہ پیغمبر کا اقرار کرے۔ اقرار نہ کرنے کی صورت میں  پیغمبر کے معاصرین کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اِس لیے خدا کی یہ اسکیم نہیں کہ دنیا میں  ہمیشہ ایک زندہ پیغمبر موجود رہے۔ خدا کی اسکیم کے مطابق، اصل مطلوب یہ ہے کہ خدا کی ہدایت ہمیشہ محفوظ اور غیر محرَّف حالت میں  موجود رہے۔ جب خدائی ہدایت کا متن (text) محفوظ ہوجائے، اوراُس میں  تحریف کا امکان باقی نہ رہے، تو زندہ پیغمبر کا موجود ہونا، غیر ضروری ہوجاتا ہے۔ یہی واقعہ پیغمبر آخر الزماں کے ظہور کے بعد پیش آیا۔ خدا کی کتاب انسان کے لیے ایک بک آف ریفرنس (book of reference)  کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب ایک محفوظ بک آف ریفرنس دستیاب ہوجائے، تو اس کے بعد نئے پیغمبر کی بعثت اپنے آپ غیر ضروری ہوجاتی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom