روحانی سماج
تخلیق کا اصل مقصود انسان ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران جو چیزیں وجود میں آئیں، وہ سب صرف اس لیے تھیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو کامیابی کے ساتھ طے کرسکے۔ اس پورے عمل (process) کے ذریعہ جو آخری چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ ایک اعلیٰ درجے کا روحانی سماج (spiritual society) بنے، جو اُس معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہو جس کو جنت (Paradise) کہا گیا ہے۔جنت ایک پر فکٹ دنیا (perfect world) ہے، جو ان انسانوں کی آباد کاری کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل (competent) ثابت کریں۔
دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جیسا چاہے، ویسا بنائے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں اعلیٰ معیار کا روحانی سماج نہیں بن سکتا۔ یہاں صرف اعلیٰ معیار کے روحانی افراد بن سکتے ہیں۔ تخلیقی منصوبے کے مطابق جو بات ہونے والی ہے، وہ یہ کہ پوری انسانی تاریخ کے خاتمے پر اعلی درجے کے روحانی افراد کو منتخب کرکے انھیں ابدی جنت میں بسنے کا موقع دیا جائے،اور باقی لوگوں کو چھانٹ کر ان سے الگ کردیا جائے۔
اس اعلیٰ درجے کے روحانی سماج میں کون لوگ شامل ہوں گے، ان کا ذکر قرآن میں چار گروہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
اس اعلیٰ سماج کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حسن رفاقت کا سماج ہوگا۔ وہاں کوئی انسان دوسرے انسان کے لیے کوئی مسئلہ (nuisance) پیدا نہیں کرے گا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا بہترین ساتھی ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوگا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا سچارفیق ہوگا، کوئی انسان دوسرے انسان کا حریف نہ ہوگا۔ ہر انسان اعلیٰ اخلاقی اقدار (high moral values) کا حامل ہوگا۔ ہرانسان کامل درجے میں سچائی اور دیانتداری (honesty) کی صفات سے متصف ہوگا، وغیرہ۔
اس تخلیق کے مطابق جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے چاہا کہ وہ اعلیٰ درجے کی ایک دنیا بنائے۔ اسی اعلیٰ درجے کی دنیا کا نام جنت (Paradise) ہے۔ اس تخلیق کا نقشہ اس اعتبار سے بنایا گیا، جو اعلیٰ درجے کے مطلوب انسان کو وجود میں لانے میں مددگار ہوسکے۔ چوں کہ یہ انسان وہ تھے جو سیلف میڈ مین (self-made man) کے معیار پر پورے اترے۔ اس لیے اس تخلیقی منصوبہ کے مکمل ہونے میں تقریبا تیرہ بلین سال لگے۔ اس تخلیقی مدت کو اس طرح بنایا گیا کہ انسان اپنی عقل (reason) کو استعمال کرکےان کو اپنی تعمیر شخصیت کے لیے استعمال کرسکے۔