ختم ِ نبوت
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ اُسی وقت سے شروع ہوگیا، جب کہ انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمین پر آباد کیا گیا ہے۔ آدم، پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی (سوره آل عمران، 3:33)۔ اِس کے بعد ہر دور اور ہر نسل میں مسلسل طورپر پیغمبر آتے رہے، اور لوگوں کو خدا کا پیغام دیتے رہے(المومنون،23:44)۔ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں قدیم مکہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ پر خدا نے اپنی کتاب قرآن اتاری۔ اِس کتاب میں یہ اعلان کردیاگیا کہ محمد، اللہ کے رسول ہیں، اور اِسی کے ساتھ وہ نبیوں کے خاتَم (الاحزاب، 33:40) کی حیثیت رکھتے ہیں۔خاتم، یاسیل (seal) کے معنیٰ کسی چیز کو آخری طورپر مہر بند کرنے کے ہیں، یعنی اس کا ایسا خاتمہ جس کے بعد اس میں کسی اور چیز کا اضافہ ممکن نہ ہو:
Seal: To close completely
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ختمِ نبوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:لا نبيّ بعدي (صحیح البخاري، حدیث نمبر 3455 )۔ یعنی میرے بعد کوئی اور نبی نہیں۔
ختم نبوت کا مطلب ختم ضرورتِ نبوت ہے۔ محمد ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ اِس لیے ختم کردیا گیا کہ اس کے بعد نئے نبی کی آمد کی ضرورت باقی نہ رہی۔ جیسا کہ معلوم ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ وہ کامل طورپر محفوظ ہوگیا، اور جب دینِ خداوندی محفوظ ہوجائے، تو اس کے بعد یہی محفوظ دین، ہدایت حاصل کرنے کا مستند ذریعہ بن جاتا ہے۔ خدا کی ہدایت کو جاننے کے لیے اصل ضرورت محفوظ دین کی ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔قرآن کی ایک آیت میں اِس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیاگیا ہے۔
قرآن کی سورہ المائدہ میںایک آیت ہے، جس کے بارے میں روایات میںآیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، جب كه آپ میدان عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس آیت کا ایک جزء یہ ہے ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔
امت محمدی پر جو قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا یہ اس کے پورے ہونے کا اعلان ہے۔ ایک قول کے مطابق، یہ آیت قرآن کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے۔قرآن کی اِس آیت کے تین جُز ہیں:
1۔ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا۔یعنی تم کو جو احکام دیے جانے تھے، وہ سب دے دیے گئے۔ تمہارے لیے جو کچھ بھیجنا مقدر کیا گیا، وہ سب بھیجا جا چکا۔
2۔ میں نے تمھارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کردیا، یعنی قرآن کے گرد، اصحابِ رسول کی ایک مضبوط ٹیم جمع ہوگئی، جو قرآن کی حفاظت کی ضامن ہے۔
3۔ اور میں نے اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لیے پسند کرلیا، یعنی اب اسلام کو ہمیشہ کے لیے مستند دین ِ خداوندی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذکر ہے۔ حدیث کے مطابق، قدیم زمانے میں جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7871)۔مگر ان پیغمبروں پر بہت کم لوگ ایمان لائے۔ اِس بنا پر اِن پیغمبروں کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی، جو اُن کے بعداُن کی لائی ہوئی کتاب کی ضامن بنے۔ چنانچہ پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتابیں اور ان کے صحیفے محفوظ نہ رہ سکے۔
پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ آپ 570 عیسوی میںعرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت یہاں جو لوگ (بنواسماعیل) آباد تھے، ان کی پرورش تمدن سے دور صحرائی ماحول میں ہوئی۔ اِس بنا پر وہ اپنی اصل فطرت پر قائم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طورپر ساتھ دینے والوں کی بڑی تعداد حاصل ہوگئی۔ بائبل میںاِس استثنائی واقعے کو بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— وہ دس ہزار قُدسیوں کے ساتھ آیا:
He came with ten thousand of saints. (Deoteronomy 33:2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی صدی ہجری میں مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا۔ ہجرت (622ء) کے آٹھویں سال آپ فاتحانہ طور پر دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے، تو اُس وقت آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ اِس کے بعد اپنی وفات سے تقریباً ڈھائی مہینے پہلے جب آپ نے آخری حج ادا کیا اور عرفات کے میدان میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا، اُس وقت آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اِس کے بعد 632 عیسوی میں جب مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی، اُس وقت عرب کے تقریباً تمام لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اور آپ کے اصحاب کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استثنائی طورپر یہ معاملہ ہوا کہ آپ کواتنی بڑی تعداد میں قابلِ اعتماد رفقا حاصل ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی طاقت ور ٹیم تھی۔ مورخین کی شہادت کے مطابق، اِس ٹیم کا ہر فرد ایک ہیرو (hero) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت عرب کے باہر دو بڑے ایمپائر موجود تھے— بازنطینی ایمپائر، اور ساسانی ایمپائر (Byzantine Empire & Sassanid Empire)۔ یہ دونوں ایمپائر اسلامی مملکت کے خلاف ہوگئے۔ اِس طرح دونوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو جیت ہوئی، اور دونوں ایمپائر ٹوٹ کر ختم ہوگئے۔ یہی وہ عظیم واقعہ ہے جس کو بائبل میں بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— ازلی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے:
And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk 3:6)
اِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت جلد بعد ایک عظیم مسلم سلطنت بن گئی ،جو اسلام کی پشت پر ایک مضبوط سیاسی طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اصحابِ رسول اور اہلِ اسلام کا یہ سیاسی غلبہ تاریخ کا ایک استثنائی واقعہ تھا۔ مؤرخین نے عام طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے۔ انڈیا کے ایک مورخ ایم این رائے (وفات1954) کی ایک کتاب پہلی بار1937 میں دہلی سے شائع ہوئی:
The Historical Role of Islam
اِس کتاب میںانھوںنے اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے اُس کو تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرار دیاہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, Bombay, 1938, p. 5)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب، قرآن کی حفاظت کے کام میں مسلسل طورپر مشغول ہوگئے۔ قرآن کو یاد کرنا، قرآن کو لکھنا، قرآن کا چرچا کرنا، یہی اُن کا سب سے بڑا مشغلہ بن گیا۔ اِس طرح، اصحابِ رسول کی جماعت گویا کہ ایک زندہ کتب خانہ بن گئی۔ پھر جب مسلم سلطنت قائم ہوئی، تو حفاظتِ قرآن کی مہم کو ایک سیاسی طاقت کی تائید بھی حاصل ہوگئی۔ حفاظتِ قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک غیر منقطع طورپر چلتا رہا۔ یہ کسی کتاب کی حفاظت کا ایک استثنائی معاملہ تھا، جو قدیم زمانے میں کسی بھی کتاب کے ساتھ پیش نہیں آیا، نہ کوئی دنیوی کتاب اور نہ کوئی دینی کتاب۔