روحاني تسكين
جو سائنس خارجي دنيا كا علم دينے سے عاجز تھي وه اس باطني دنيا كا علم كيا ديتي جس كے بارے ميں اس نے گليليو هي كے زمانه ميں عملي طورپر اپني نارسائي كا اعلان كرديا تھا۔ سائنس آدمي كو وه جھوٹا اطمينان بھي نه دے سكي جو مادي سطح پر بظاهر ايك انسان كو حاصل هوتا هے۔ اور ذهني اور روحاني سطح كا اطمينان نه تو اس كے بس ميں تھا اور نه كبھي اس نے اس كو دينے كا دعوي كيا۔
قرآن ميںارشادهوا هے:أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی سن لو كه الله كي ياد هي سے دلوں كو اطمينان هوتا هے۔ يهي بات بائبل ميں ان الفاظ میں آئی ہے— انسان صرف روٹي هي سے جيتا نهيں رهتا، بلكه هر بات سے جو خداوند كے منه سے نكلتي هے، وہ جیتا رہتا ہے:
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسيح نے اسي بات كو ان لفظوں ميں بیان کیا ہے— آدمي صرف روٹي هي سے جيتا نه رهے گا بلكه هر بات سے جو خدا كے منه سے نكلتي هے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ايك مخصوص نفسيات ركھتا هے۔ اس نفسيات سے وه اپنے آپ كو جدا نهيں كرسكتا۔ يه نفسيات ايك برتر تسكين كي طالب هے۔ انسان كو مادي سازوسامان كے ساتھ ايك عقيده اور ايك اصولِ حيات بھي دركار هے۔ سائنس نے انسان كو جو كچھ ديا، وه اپني آخري صورت ميں بھي صرف مادي سازوسامان تھا۔ سائنس انسان كو ايك قابلِ اعتماد عقيده نه دے سكي۔ يهي وه كمي هے، جس نے جديد دنيا كے بے شمار لوگوں كو غير مطمئن كر ركھا هے۔ باهر سے ديكھنے والوں كو ان كي زندگياں پُررونق نظرآتي هيں۔ مگر اندر سے ان كي روح بالكل ويران هوچكي هے۔