آخرت كا اعلان
خدا نے موجوده زمين (planet earth) كو انسان كے عارضي قيام كے لیے بنايا هے۔ اس كي ايك مدت مقرر هے۔زمين كا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) بھي اِسي محدود مدت كے اعتبار سے بنايا گياهے۔
خدا كے علم كے مطابق، جب يه محدود مدت پوري هوگي، تو اس كے فوراً بعد صور پھونك ديا جائے گاجو اِس بات كا اعلان هوگا كه انساني تاريخ كا پهلا دور ختم هوچكا، اب وه وقت آگيا هے، جب كه انسان كے لیے دوسرے دورِ تاريخ كا آغاز كرديا جائے۔
منصوبه خداوندي كے مطابق، اس كے بعد اِس دنيا كو توڑ كر ايك اور زياده بهتر دنيا بنائي جائے گي۔ اِس دوسري دنيا ميں صرف وه لوگ جگه پائيں گے جو موجوده دنيا ميں اپنے آپ كو اس كا مستحق اميدوار (deserving candidate) ثابت كرچكے ـتھے۔
خدا كو يه مطلوب هے كه صور پھونكے جانے سے پهلے كچھ ايسي نشانياں ظاهر هوں، جو پيشگي طور پر انسان كو يه خبر ديں كه موجوده دنيا ختم هونے والي هے، اور دوسري دنيا شروع هونے والي هے۔ تم اپني غلطيوں كي اصلاح كرلو، اور اگلي دنيا ميں داخل هونے كے لیے تيار هوجاؤ۔
اس مقصد كے لیے خدا نے پيشگي طورپر الارم (alarm) دينے كا جو انتظام كيا هے، اس كو ويك اَپ كال (wake-up call) كهه سكتے هيں۔اِس الارم يا ويك اَپ كال كي دو خاص نشانياں هيں — ايك، فطرت ميں ، اور دوسري تاريخ ميں۔ حالات بتاتے هيں كه دونوں قسم كے الارم بج چكے۔ اگرچه اس كو سننا صرف اُن لوگوں كے لیے ممكن هے جو خاموش آواز كو سننے كي صلاحيت ركھتے هوں۔
فطرت كے الارم كي ايك نماياں مثال يه هے كه هماري زمين ميں زندگي كے جو وسائل (resources) ركھے گئے تھے، وه نهايت تيزي سے ختم هورهے هيں۔ يه كهنا صحيح هوگا كه يه وسائل اب بظاهر خاتمه كي آخري حد پر پهنچ چكے هيں۔ يه بات قرآن ميں پيشگي طور پربتادي گئي تھي كه دنيا ميں جو وسائلِ حيات هيں، وه محدود هيں، نه كه لامحدود (15:21)۔
موجوده زمانے ميں جس طرح هر چيز تحقيق (research) كاموضوع بني هوئي هے، اسي طرح فطرت كے وسائل (natural resurces) پر بھي بڑے پيمانے پر ريسرچ هورهي هے۔ اس سلسلے ميں كافي ميٹريل چھپ كر سامنے آچكا هے۔ يهاں هم اِس نوعيت كي چند كتابوں كا حواله درج كرتے هيں:
1. The Limits to Growth by Donella H. Meadows, Dennis L. Meadows, Jorgen Randers Universe Books, 1972, pp. 205, Printed in the USA
2. The End of Nature by Bill Mc Kibben, Anchor, 1989, pp. 195, printed in the USA
3. Beyond the Limits Donella Meadows, Dennis Meadows, Jorrgen Randers, Chelsea Green, 1992, Pages 320, Printed in the USA
مذكوره بالا كتابيں اوراس طرح كي دوسري كتابيں بتاتي هيںكه فطرت (nature) كے وسائل ابتدا هي سے محدود هيں۔ انسان نے، خاص طورپر موجوده ترقي كے زمانے ميں، ان وسائل كا لامحدود استعمال كيا، جس كا تحمل هماري محدود دنيا نهيں كرسكتي تھي۔ اب يه وسائل اتنا زياده كم هوچكے هيں كه هر طرف سسٹينيبل ڈيولپمينٹ (sustainable development) كي باتيں هو رهي هيں۔ مگر حقيقت يه هے كه يه سسٹينيبل ڈولپمنٹ كا معامله نهيں هے، بلكه يه وسائل كے خاتمه كا معامله هے۔
وسائل كا يه خاتمه اتنا زياده حتمي بن چكا هے كه بعض سائنس دانوں مثلاً اسٹيفن هاكنگ (Stephen Hawking) نے يه تجويز كياهے كه انساني نسل كو اگر باقي ركھنا هے تو هم كو خلائي بستياں (space colonies) بنانا چاهيے۔ مگر ظاهر هے كه يه صرف ايك سائنٹفك جوك (scientific joke) هے، نه كه حقيقي معنوں ميں كوئي قابلِ عمل تجويز۔
قيامت كے الارم كا دوسرا پهلو وه هے جس كو تاريخي پهلو كها جاسكتا هے۔ اس تاريخي پهلو كي غالباً سب سے زياده نماياں مثال نوح كي كشتي (Ark of Noah) كا ظهور هے۔ كشتئ نوح كے ظهور كا معامله كوئي ساده معامله نهيں هے۔ وه تاريخي شهادت (historical evidence) كي زبان ميں پيغمبرانه مشن كا ايك علامتي بيان هے۔
كشتي نوح يا دابّه گويا زبانِ حال سے يه كهه رهے هيں كه حضرت نوح اور اسي طرح خداكے دوسرے بهت سے پيغمبر دنيا ميں آئے، ليكن انسان نے ان كو اتنا زياده نظر انداز كيا كه اپني مدوّن تاريخ (recoded history) ميں ان كا اندراج تك نهيں كيا۔
يه كشتي نوح يا دابّه اُس تاريخ كو بيان كررهے هيں، جب كه پيغمبر نے اپنے زمانے كے انسانوں كو آگاه كيا كه اگر انھوں نے پيغمبر كي بات نهيں ماني تو وه خدا كي پكڑ ميں آجائيں گے، اور اب يه واقعه عملاً پيش آگيا۔حقيقت يه هےكه كشتي نوح يا دابّه خدا كے تخليقي منصوبه (creation plan) كا علامتي اظهار هيں۔ وه خداكے تخليقي منصوبے كے بارے ميں ايك زنده شهادت (living evidence) كي حيثيت ركھتے هيں۔