حکمت کی آفاقیت

ایک حدیث رسول سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ ،وغیرہ کتب حدیث میں  آئی ہے۔ مسند الشہاب القضاعی کے الفاظ یہ ہیں: الحكمة ضالة المؤمن، حيثما وجد المؤمن ضالته فليجمعها إليه (حدیث نمبر146)۔یعنی حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں بھی مومن اپنے گمشدہ مال کو پائے، وہ اس کو اپنے پاس اکٹھا کرلے۔

حکمت (wisdom) کی بات کیوں مومن کا حق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر حکمت ایک ربانی عطیہ ہے، اور جو چیز ربانی عطیہ (divine gift) ہو، وہ کسی کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی۔ ہر ربانی عطیہ ایک آفاقی نعمت ہے، اور آفاقی نعمت میں  ہر انسان کا مشترک حصہ ہوتا ہے۔ حکمت سے مراد مادی تخلیقات بھی ہیں، اور حکمت و بصیرت کی باتیں بھی۔ جس طرح سورج اور پانی خالق کا آفاقی عطیہ ہے، اسی طرح قانون فطرت (law of nature) میں  تحقیق سے حاصل ہونے والی حقیقتیں بھی آفاقی نعمتیں ہیں۔ وہ ہر انسان کا حصہ ہیں، مومن کابھی اور غیرمومن کا بھی۔ عطیات الٰہی میں  تفریق یقینا جائز نہیں۔

عطیات الٰہی کے بارے میں  یہ آفاقی نظریہ ایک انقلابی نظریہ  ہے۔ وہ انسان کی سوچ کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔مثال کے طور پر وہ محققین جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے فطرت کے قوانین کو دریافت کیا، وہ شخصیتیں بھی پوری انسانیت کا حصہ ہیں۔ اس طرح یہ نظریہ آدمی کے اندر ایک یونیورسل آؤٹ لک (universal outlook) پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد متعصبانہ طرز فکر کی جڑ کٹ جاتی ہے، دوست اور دشمن کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، ہر انسان کو دوسرا انسان اپنا دوست نظر آنےلگتا ہے۔ یہ نظریہ نفرت کاقاتل ہے۔ وہ عالمی محبت کو فروغ دینے والا ہے۔

اس حدیث میں  حکمت سے مراد صرف حکمت دین نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہر وہ حکمت ہے، جو درست اور مفید ہو، جو حقیقت واقعہ کے مطابق ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom