ترکی سے میرا تعلق
میں 1938 میں تعلیم کے لیے انڈیا کے ایک عربی مدرسہ (الاصلاح) میں داخل ہوا۔ اسی سال ترکی میں مصطفي کمال اتاترک کا انتقال ہوا تھا۔ اس طرح تقریباً 75 سال سے میں ترکی اور اتاترک کا نام سنتا رہا ہوں۔ اس موضوع کے بارے میں جو کچھ اردو، عربی اور انگریزی میں لکھاگیا ہے، اس کا بھی ایک قابل لحاظ حصہ میں نے پڑھا ہے۔ لیکن ترکی حقیقت میں کیا ہے، اس کے بارے میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی بے خبری میں جی رہا تھا۔ ترکی اور اتاترک کا نام میرے ذہن میں دوسروں کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر ایک منفی نام تھا، جو ابھی حال تک باقی رہا۔
یکم مئی 2012 کو پہلی بار مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کا سفر کروں۔ یہ سفر ’’سيرتِ رسول‘‘ كے موضوع پر هونے والي ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے تھا۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس سلسلے میں مجھے تقریباً ایک ہفتہ ترکی میں قیام کا موقع ملا۔ یہ سفر میرے لیے ترکی کی دریافت کے ہم معنی بن گیا۔ 5 مئی 2012 کو جب میں نے ترکی کے ایک شہر (Gaziantep) میں مذکورہ کانفرنس میں افتتاحی خطاب کیا تو شروع ہی میں میں نے کہا:
It was my first visit to Turkey, but it proved to be a discovery visit.
اِس سفر سے پہلے میں ترکی کو دوسروں کي فراہم کردہ معلومات کی بناپر جانتا تھا، مگر جب میں نے خود ترکی کا سفر کیا تو مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھوں اور براہِ راست طورپر اس کو جاننے کی کوشش کروں۔ اِس کے نتیجے میں جو واقعہ پیش آیا، اس کو ميں ایک لفظ میں اس طرح بیان کرسکتا ہوں — میں نے ترکی کو ازسرِ نو دریافت کیا۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے اقتدار پاکر ترکی میں مذهب کا خاتمہ کرنے كي كوشش كي۔ مثلاً انھوں نے حکم دیا کہ عربی کے بجائے ترکی میں اذان دی جائے۔ انھوں نے ايك قانون كے ذريعے تركوں كو پابند كيا كه وه قديم تركي ٹوپي كے بجائے مغربي طرز كے هيٹ (hat)پهنيں۔ انھوں نے مسجدوں کو میوزیم میں تبدیل کردیا۔ انھوں نے قرآن پر پابندی لگا دی، وغیرہ۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مسجدوں سے لاؤڈسپیکر پر عربی میں اذان کی آوازیں آرہی ہیں۔ مسجدوں میں لوگ اُسی طرح نمازیں پڑھ رہے ہیں، جس طرح میں نے انڈیا میں اور دوسرے ملکوں میں دیکھا تھا۔ هم نے اپنے اس سفر كے دوران كسي ترك كو هيٹ پهنے هوئے نهيں ديكھا۔ کانفرنس کا افتتاح ہوا تو وہاں ایک ترک قاری نے خالص عرب لہجے میں قرآن کی لمبی تلاوت کی۔اِن باتوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میں ترکی کے علاوہ کسی اور ملک میں پہنچ گیا ہوں، مگر باربار کے تجربات نے آخر کار یہ یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ میں اُسی ملک میں ہوں جس کا نام ترکی ہے۔
يه ايك عام مزاج هے كه لوگ ناموافق چيزوں كا مبالغے كے ساتھ ذكر كرتے هيں، وه ايك استثنائي واقعے كو جنرلائز كركے اس كو عمومي انداز ميں بيان كرتے هيں۔ بظاهر ايسا هي تركي ميں هوا۔ كمال اتاترك نے پُرجوش اندازميں مذهب كے خلاف كچھ باتيں كهيں، اور اس كے مطابق كچھ اقدامات بھي كيے، ليكن اِن اقدامات كا نتيجه عملي اعتبار سے نهايت محدود تھا، اور يهي هوسكتا تھا۔
اِس كي ايك مثال روس ميں قائم هونے والا كميونسٹ ايمپائر هے۔ وهاں باقاعده ايك مخالفِ مذهب نظريے كے تحت يه كوشش كي گئي كه كميونسٹ ايمپائر ميں مذهب كا كلي خاتمه كرديا جائے۔ ليكن 1991 ميں جب سوويت يونين ٹوٹا تو اچانك وهاں مذهب دوباره زنده هوگيا۔ اِس كا سبب يه تھا كه حكومت كي مخالفانه كارروائيوں كے باوجود مذهب اگرچه اوپري سطح سے بظاهر غائب هوگيا تھا، ليكن انڈرگراؤنڈ سطح پر وه اب بھي موجود تھا۔ يهي واقعه تركي ميں هوا۔ اتاترك كے زمانے ميں حكومت كي كارروائي سے مذهب ظاهري سطح پر كسي درجے ميں غير موثر هوگيا تھا، ليكن اتاترك كے بعد رفته رفته وه پوري طرح زنده هوگيا۔اب كمال ازم صرف كچھ كتابوں ميں پايا جاتا هے، خود تركي ميں اس كا كوئي وجود نهيں۔
اصل یہ ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں انسان کا مزاج ہمیشہ یک طرفہ رپورٹنگ کا رہاہے۔ لوگوں کی یہ قدیم عادت ہے کہ اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اس کی رپورٹنگ نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی بظاہر بری بات ہو تو وہ اس کو فوراً رپورٹ کریں گے اور ہر جگہ مزید اضافے کے ساتھ اس کا چرچا ہونے لگے گا۔ یہی ترکی کے ساتھ ہوا۔ ترکی، کمال اتاترک کی روش سے زیادہ ، لوگوں کے اِس غلط مزاج کا شکار ہوا ہے۔ جدید ترکی جس بدنامی کا شکار ہوا ہے، وہ زیادہ تر لوگوں کے اِسی مزاج کا نتیجہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں ، خود اتاترک کے فعل کا نتیجہ۔
مثال کے طور پر خلافت کے زمانے میں ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اتاترک نے ایک قانون بنا کر ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ بات جس طرح بھیانک انداز میں رپورٹ کی گئی، حقیقت میں وہ اتنی بھیانک نہ تھی۔ اصل یہ ہے کہ ترکی زبان قدیم زمانے میں ایک آرمینین رسم الخط (Armenian Script) میں لکھی جاتی تھی، جس کا نام یہ تھا — Orkon۔نویں صدی عیسوی تک یہی آرمینین رسم الخط ترکی میں رائج رہا۔ اس کے بعد اسلام کے فروغ اور عربوں کے اختلاط کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ترکی میں عربی رسم الخط رائج ہوگیا۔
اس کے بعد جب ترکی میں اسلام پھیلا اور عربوں کو غلبہ حاصل ہوا تو دھیرے دھیرے انٹریکشن کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا کہ ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع اول میں اتاترک نے ترکی زبان کے رومن رسم الخط میں لکھے جانے کا حکم جاری کیا۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ بھی اتفاقاً نہیں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ جس طرح اِس سے پہلے عربوں کے اختلاط سے ترکی زبان میں عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا، اِسي طرح بعد کے زمانے میں یورپ کے اختلاط سے وہ ماحول پیداہوا جس کے زیر اثر اتاترک نے ترکی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کردیا۔ اِس پس منظر میں رسم الخط كے معاملے كو اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ سنگين نظر نہیں آئے گا۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کے رسم الخط کو بدلنا وقت کا ایک تقاضا بن چکا تھا۔ ترکی جزئی طورپر یورپ کا ایک حصہ ہے۔ یورپ کی تمام زبانیں رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری تھا کہ ترکی زبان بھی اپنے پڑوسی ملکوں کے رسم الخط میں لکھی جائے۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں جب ترکی زبان کا رسم الخط بدلا گیا تو بظاہر وہ ایک ریڈیکل واقعہ نظر آتا تھا، لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ ایک دور اندیشی کا فیصلہ تھا۔ جلد ہی بعد دنیا میں کمپیوٹر کا دور آیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر کی اصل زبان انگریزی ہے جس کا رسم الخط رومن ہوتاہے۔ ترکی زبان اپنے رومن رسم الخط کی بنا پر بہت جلد کمپیوٹر کے دور میں داخل ہوگئی۔ وہاں بہت جلد ہر قسم کے علمی اور تعلیمی شعبوں کا کمپیوٹرائزیشن (computerization) ہوگیا، جب کہ آج بھی مسلم ممالک کی دوسری زبانیں جیسے اردو، عربی اور فارسی ، اِس معاملے میں ، ترکی زبان سے بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی زبان میں ایک روزنامہ نکلتا ہے جس کا نام زمن (Zaman) ہے، یہ اخبار روزانہ ایک ملین کی تعداد میں چھپتا ہے۔ اس کا صحافتی درجہ یورپ کے کسی بھی معیاری اخبار کے برابر ہے۔ اس قسم کا معیاری اخبار کسی مسلم ملک میں آج بھی نہیں پایا جاتا۔ اِسی مثال پر دوسری چیزوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔